ٹرمپ کا پاکستان کے ساتھ حیران کن رومانس: جنگ بندی سے تیل کی تلاش تک
تیل و گیس شعبہ میں 7 ارب 50 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع۔ پاکستان نے 40 آف شور بلاکس آفر کردئیے
اسلام آباد(صدام حسین) مئی 2025 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان چار روزہ فوجی جھڑپوں نے جنوبی ایشیا کو ایک بار پھر ایٹمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا۔ یہ تنازعہ، جو 7 مئی کو بھارتی میزائل حملوں سے شروع ہوا اور پاکستان کی جوابی کارروائیوں تک پھیلا اور 10 مئی کو امریکہ کی ثالثی سے جنگ بندی پر منتج ہوا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر اس اعلان کا کریڈٹ لیتے ہوئے کہا کہ بھارت اور پاکستان نے مکمل اور فوری جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے ۔ اس اعلان نے نہ صرف علاقائی کشیدگی کو کم کیا بلکہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کو ایک نئی جہت بھی دی، خاص طور پر پاکستان کے ساتھ تعلقات میں ایک غیر متوقع گرم جوشی کا اضافہ ہوا۔
پاکستان نے اس جنگ بندی کو فوری طور پر خوش آئند قرار دیا اور امریکی انتظامیہ، بالخصوص ٹرمپ کی کوششوں کی تعریف کی۔ صرف چند دنوں بعد، پاکستانی حکومت نے ٹرمپ کا نام 2026 کے نوبل امن انعام کے لیے تجویز کر دیا، ان کی فیصلہ کن سفارتی مداخلت کو سراہتے ہوئے۔ تاہم، بھارتی حکومت نے ٹرمپ کے کردار پر مکمل خاموشی اختیار کی، جو دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کی عکاسی کرتی ہے۔ بھارتی میڈیا اور تجزیہ کاروں نے اسے امریکی یک طرفہ مداخلت قرار دیا، جبکہ نئی دہلی نے کسی تیسرے فریق کی ثالثی کو مسترد کر دیا۔
جنگ بندی کے بعد، ٹرمپ نے مختلف مواقعوں پر میڈیا ٹاکس، کانفرنسز اور خطابات میں کم از کم 35 بار اس کا ذکر کیا اور کریڈٹ لیا۔ انہوں نے بار بار یہ دعویٰ کیا کہ میں نے دونوں ملکوں کو تجارت کے معاہدوں کا لالچ دے کر جنگ بندی پر آمادہ کیا اور ایٹمی جنگ کا خطرہ ٹال دیا۔ یہ بیانات ٹرمپ کی میک امریکہ گریٹ اگین مہم کا حصہ نظر آتے ہیں، جہاں وہ اپنی سفارتی کامیابیوں کو امریکی خارجہ پالیسی کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ تاہم، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ دعوے حقیقت سے زیادہ سیاسی بیان بازی پر مبنی ہیں، کیونکہ جنگ بندی میں علاقائی اور عالمی دباؤ کا بھی کردار تھا۔
اس تناظر میں سب سے حیران کن پیشرفت پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں ظہرانے کی دعوت تھی، جو 18 جون 2025 کو ہوئی۔ یہ ملاقات کئی گھنٹوں تک جاری رہی، جس کے بعد ٹرمپ نے میڈیا سے گفتگو میں منیر کی بہت زیادہ تعریف کی اور کئی مواقعوں پر میں پاکستان سے محبت کرتا ہوں جیسے الفاظ بھی دہراتے رہے۔ ٹرمپ نے متعدد مواقع پر پاکستان اور اس کی قیادت کی تعریف کی، جو ان کے پہلے دورِ اقتدار سے بالکل برعکس ہے جہاں انہوں نے پاکستان پر ڈبل گیم کے الزامات لگائے تھے اور اربوں ڈالر کی امداد روک دی تھی۔ یہ تبدیلی بھارت سمیت دنیا بھر کے مبصرین کو حیران کر رہی ہے۔ پاکستانی عوام اور تجزیہ کار بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ٹرمپ کا یہ رومانس کیسے ممکن ہوا۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ امریکہ کی چین مخالف حکمت عملی کا حصہ ہے، جہاں پاکستان کو بطور اتحادی استعمال کیا جا رہا ہے، خاص طور پر چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے تناظر میں۔
اقتصادی محاذ پر، ٹرمپ نے میک امریکہ گریٹ اگین کے نعرے کے تحت عالمی امپورٹ ڈیوٹیوں میں اضافہ کیا تاکہ امریکی برآمدات بڑھیں اور مقامی صنعت کو فروغ ملے۔ حیران کن طور پر بھارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا جبکہ پاکستان پر علاقے میں سب سے کم 19 فیصد۔ یہ فرق بھارتی معیشت پر شدید دباؤ کا سبب بنا، خاص طور پر روسی تیل کی درآمدات کی وجہ سے اضافی ٹیکسوں کی صورت میں۔ اس کے برعکس پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ مکمل ہونے کے بعد ٹرمپ نے ٹرتھ سوشل پر پوسٹ کیا کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ مکمل کر لیا ہے، اور امریکہ پاکستان کے تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش میں بڑی سرمایہ کاری کرے گا۔ جلد ایک آئل ایکسپلوریشن کمپنی کا تعین ہو جائے گا، اور ایک وقت آئے گا جب پاکستان بھارت کو بھی تیل فروخت کرے گا۔روسی کروڈ آئل کی درآمدات کو لیکر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پرانے اور قریبی دوست بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے سخت ناراض دکھائی دئیے اور ان کے منع کرنے کے باوجود بھی بھارت روس سے مسلسل تیل درآمد کررہا ہے جس کے بعد امریکہ نے بھارت پر مزید 25فیصد ٹیرف عائد کرکے 50فیصد تک پہنچادیا۔
حال ہی میں پاک امریکہ مذاکرات کے نتیجے میں تیل اور گیس سیکٹر میں امریکی سرمایہ کاری کی خبر سامنے آئی ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق امریکہ خشکی اور سمندری ذخائر میں 7 ارب 50 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ پاکستان نے سرمایہ کاری کے لیے 40 آف شور بلاکس کی بولی کی پیشکش کی ہے، جن میں سے ہر بلاک کے لیے تقریباً 15 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہے، جو مجموعی طور پر 6 ارب ڈالر کی توقع رکھتی ہے۔ اسی طرح، خشکی پر تیل کے ذخائر کی تلاش کے لیے 23 بلاکس پیش کیے گئے ہیں، جن پر 1.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ آف شور بلاکس کی بولی 31 اکتوبر کو کھولی جائے گی، جبکہ آن شور بلاکس کی 10 اکتوبر کو۔ ترکش پیٹرولیم کمپنی سمیت متعدد کمپنیاں دلچسپی کا اظہار کر چکی ہیں، جو پاکستان کی توانائی خود کفالت کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ پیشرفتیں امریکہ پاکستان تعلقات میں ایک نئی شروعات کی نشاندہی کرتی ہیں، لیکن سوالات باقی ہیں: کیا یہ مستقل اتحاد ہے یا محض حکمت عملی؟ بھارت کی خاموشی اور ٹرمپ کی بیان بازی سے یہ واضح ہے کہ جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے، اور اس کے اثرات طویل مدتی ہو سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ امریکی توانائی سیکیورٹی اور چین کے خلاف حکمت عملی کا نتیجہ ہے، جو پاکستان کو ایک کلیدی کھلاڑی بنا رہا ہے۔ تاہم، علاقائی امن کی ضمانت کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان براہ راست بات چیت ناگزیر ہے۔
Comments are closed.