اسلام آباد کے علاقے ایف ٹین مرکز میں کروڑوں روپے کے محلات کے سامنے بنی فٹ پاتھ پر دو نوجوانوں کو پچھلے پانچ سات دنوں سے دیکھ رہا تھا جو کہ شام کو دستر خوان سے ایک آدھ روٹی لیکر اپنی رہائش گاہ( فٹ پاتھ ) کی طرف روانہ ہو جاتے۔۔۔
کل شام انہیں ایک نجی سیکورٹی کمپنی آفس کے باہر زار و قطار بچوں کی طرح روتا دیکھا ، تجسس بڑھا ان کے پاس جا کے وجہ اشک باری دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ سیکورٹی کمپنی کے مالک نے آٹھ ہزار تنخواہ روکی ہوئی ہے ۔
کروڑوں کی چمکتی دمکتی گاڑی میں تشریف لانے والے ذہنی پسماندگی و مفلسی کا شکار مالک انہیں پچھلے ایک ہفتے سے روز کل آ کر پیسے لینے کا نسخہ دے رہا تھا۔ لیکن آج تو کرک سے تعلق رکھنے والے دونوں بھائیوں نے اس فرعون کے پاؤں پکڑ لئیے تھے دولت کے نشے میں چور سیٹھ صاحب لاکھوں روپے مالیت کے فون کو کان سے لگا کے اپنے روم میں گھس گئے۔
قارئین کرام یہ دارلحکومت کا پوش سیکٹر ایف ٹین تھا جہاں ظلم کا کھیل جاری تھا، یہ نوجوان روز آٹھ ہزار کے انتظار میں رات کو فٹ پاتھ پہ سو جاتے کہ شائد کل پیسے مل جائیں اور یوں ریاست مدینہ میں نیا سورج طلوع ہو جاتا۔
سب سے بڑا ستم تو یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق کی مثالیں دینے والے حکمران کے شہر میں قانون کے رکھوالے انہیں انصاف دلوانے کی بجائے فٹ پاتھ پہ بھی سونے سے بھگاتے رہے کیونکہ شاید امیروں کے جوتوں کی چمک کو غریبوں کے فٹ پاتھ پہ سونے سے خطرات لاحق تھے۔
پولیس پر تنقید کیساتھ ساتھ اس کہانی کے ڈراپ سین میں بھی ایک پولیس افسر کا کلیدی کردار ہے جس نے ان بے کسوں کی طرف توجہ دلانے پر نہ تو فضول گشت پر ہونے کا بہانہ کیا اور نہ ہی مجھے آئین پاکستان پر لیکچر دیا کہ جی کچھ بھی نہیں ہونا، چھوڑیں آپ ایسے لوگ روز آتے جاتے ہیں ۔
علاقہ ایس ایچ او فوری موقع پر آئے ، کمپنی کے دیو ہیکل سپاہڈر مین سے بات کی، افسران اور سیاست دانوں کے پروٹوکولز میں مصروف رہنے والی پولیس نے گزشتہ روز ایک لاچار کو جس انداز میں وی آئی پی کا درجہ دیا وہ یقیناً قابل تحسین ہے۔
سپائیڈر مین سے بات کی تو پیسے نہ ہونے کی رٹ لگانے والی کی جیب سے فوراً آٹھ ہزار نکل آئے ، وی آئی پیز کے پروٹوکول میں مصروف رہنے والی پولیس نے کل ان بچوں کو وی آئی پی کا درجہ دیکر ، فوری حق دلایا اور ایک مثال قائم کی۔
کام چوری اور مفادات سے نکل کر اگر تمام ادارے کام کریں تو یہ ایک مثالی ریاست بن سکتی ہے۔ یقین مانیں بغیر کسی صلے کی امید کے جو سکون ان مظلوموں کی مدد کر کے آتا ہے وہ کسی شاہ کی جئے سے محسوس بھی نہیں کیا جا سکتا۔
Comments are closed.