سردار غلام صادق خان سابق سپیکر قانون ساز اسمبلی کی چوتھی برسی آج 30نومبر کو انکے آبائی شہر ہجیرہ میں منائی جا رہی ہے۔عوام سردار غلام صادق خان کی خدمات اور حلقے میں تعمیر و ترقی کے میگا پروجیکٹس کو پکار پکار کر یاد کرتے ہیں۔سردار غلام صادق مرحوم نہ صرف ایک سیاسی کارکن تھے بلکہ ایک وفادار اور ہر حال میں اپنے لیڈر شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نام پر اپنی جان دینے کے نظریے پر قائم رہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی آئے گی اور ملک میں خوشحالی لائے گی
مرحوم ہمیشہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے اس قول کی پاسداری کرتے رہے کہ عوام ہی اصل طاقت کا سر چشمہ ہے، انہوں نے ہمیشہ عوامی مفاد کے لیے کام کیا اور عوام میں شعور، پارٹی قیادت سے وفا، بھٹو ازم کے فلسفہ اور نظریہ سے پختگی کی ایک مثال قائم کی۔ انہوں نے برادری ازم سے پاک سیاست کو متعارف کروایا۔سردار غلام صادق سابق سپیکر قانون ساز اسمبلی آزاد کشمیر کاسیاسی سفر قائد عوام ذولفقاربھٹو شہید کے عدالتی قتل کے خلاف 1979میں سرکاری ملازمت سے استعفٰی دیکر گرفتاری سے ہوا اور یکم دسمبر2020کی صبح ساڑھے آٹھ بجے شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام میں خالق حقیقی سے جاملنے پر اختتام پذیر ہوا۔
سردار غلام صادق نے اپنی سیاسی زندگی میں کارکنوں کی تربیت جدوجہد اور سماج میں انصاف کے لیے علم بلند رکھا۔مرحوم پیپلزپارٹی کے ساتھ ساری زندگی چٹان بن کر کھڑے رہے۔ سردار غلام صادق نے نئی نسل کو سیاست میں مستقل مزاجی اور نظریے کے ساتھ استقامت اور پارٹی قیادت سے وفا کرنا سکھایا۔ حلقہ انتخاب کی عوام کے دل آج بھی غلا م صادق کے پیار، محبت سے دھڑکتے ہیں۔
سردار غلام صادق جس دن دنیا سے رخصت ہوئے پارٹی پرچم کے ساتھ انکا بنک بیلنس محظ چالیس ہزار روپیہ تھا۔ سردار غلام صادق کی سیاسی زندگی آزادکشمیر بھر کے سیاسی کارکنوں کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔سردار غلام صادق نے اپنی سیاسی جدوجہد سے ثابت کیا کہ ایک متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے اورکچے گھر میں رہنے والا بھی ریاست کے تیسربڑے عہدے تک پہنچ سکتا ہے۔ سردار غلام صادق کو محترمہ بینظیر بھٹو کے بعد بلاول بھٹو زرداری کا بھی مکمل اعتماد حاصل رہا۔حلقہ کی عوام آج بھی سردار غلام صادق کی تعمیر و ترقی کو سنہری الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔
سردار غلام صادق خان جہد مسلسل کا نام ہے۔
مرحوم سردار غلام صادق نے اپنے 15 سالہ دور جو ایم ایل اے، مشیر وزیراعظم پاکستان اور سپیکر شپ کے دور میں بھی عوام سے دور نہ رہے۔سردارغلام صادق مرحوم نے جب 1979 میں اپنی ملازمت سے استعفٰی دیکر ذولفقار علی بھٹو شہیدکے عدالتی فیصلے کے خلاف میدان عمل میں اترے اور گرفتاری پیش کی تو اس وقت نہ انہیں یہ خیال تھا کہ میں 2001سے MLA 2016 /اسپیکر اسمبلی بنوں گا۔ بلکہ پیپلزپارٹی کی جدوجہد اور قائد عوام کی صلاحیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نظریے، عوامی سوچ اور عوام کی خوشحالی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔
اپنے سچے اور کھرے جذبے سے 41 سالہ جدوجہد میں علاقے کی تعمیر و ترقی اور عوامی خوشحالی کے لیے سر خرو ہوئے۔سردار غلام صادق مرحوم کا شمار ان چند قومی رہنماؤں میں ہوتا ہے جو ساری زندگی سیاست کو عبادت سمجھ کر اپنے نظریہ پر قائم رہے اور سماج و آمریت میں سے نکلنے والی کوئی رکاوٹ بھی انکو اپنے اصولوں اور بھٹو ازم سے جدا نہ کرسکی۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے اس نظریے پر کاربند رہے کہ طاقت کاسرچشمہ عوام ہیں۔ عوام سردار غلام صادق خان کی خدمات اور حلقے میں تعمیر و ترقی کے میگا پروجیکٹس کو پکار پکار کر یاد کرتے ہیں۔ اور ان کے بعد اب حلقہ کے عوام تعمیر و ترقی کے پراجیکٹس کے لیے ترس کر رہ گئے ہیں۔
پارٹی کارکنا ن سردار غلام صادق مرحوم کی سیاسی زندگی کو اپنے لیے مشعل راہ سمجھتے ہیں۔ مرحوم عوام کے دلوں میں بستے ہیں۔ خلق خدا کی خدمت، مظلوموں کی داد رسی، دکھی انسانوں کی عظمت کے راج کے لیے سیاست کو عبادت کا درجہ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج ہم میں نہیں لیکن مگر انکی یادیں، انکے کام، انکے افکار، جم کر سیاست کرنے، ایک نظرئے پر قائم رہنے، وفا کے پیکر بھٹوازم کے استحکام، اصولوں کی سیاست ایک رول ماڈل کی طرح ہمارے سامنے کھڑی ہے۔ انہوں نے ساری زندگی معاشی ناہمواریوں کے خلاف اور انصاف کے بول بالے کے لیے جدوجہد کی۔ غربت پر قابو پانا خیرات کا کام نہیں بلکے انصاف کا کام ہے(نیلسن منڈیلا)۔سردار غلام صادق مرحوم کی شخصیت انتہائی شفیق وحلیم تھی، انہوں نے اپنے عمل سے عوام کے دل جیتے اور ایک با عمل سیاسی شخصیت کہلانے لگے، انکی ذات ایک انجمن تھی۔
انہوں نے اپنی زندگی میں سب سے بڑا سرمایہ عوام کا پیار اور اعتماد حاصل کیا۔ہر دور میں سیاسی سوداگروں نے قیمت لگانے کی کوششیں کی مگر پتر ہٹا نے نہیں وکدے کا عملی نمونہ پیش کیا اور کسی بھی قسم کے زرق برق سے متاثر نہیں ہوئے۔انکا پیغام محبت سیاست ہے کہ زندگی اصولوں اورایک نظریہ پر گزارو کیونکہ اسکے لیے پہاڑ جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایک محب وطن کا خون قوم کی آزادی کے درخت کا بیج ہوتا ہے۔ (چی گوریرا)۔ سردار غلام صادق نے اپنے طرز سیاست سے سیاسی کارکنان کو ایک فلسفہ حیات دیاکہ سیاست غریب گھرانے کا فرد بھی کر سکتا ہے اور سیاست میں اصولوں پر چٹان کی طرح کھڑا رہا جا سکتا ہے۔ سیاست میں بردباری، استقامت اور نظریہ پر پہرہ دیا جا سکتا ہے۔ سردار غلام صادق مرحوم پیپلزپارٹی کی سوچ و فکر پر کار بند رہے، سردارغلام صادق کا سپیکرشپ کا دور2016میں ختم ہوا۔ آج سات سال گزر جانے کے بعد بھی حلقہ انتخاب میں ن لیگ ایک بھی میگا پروجیکٹ نہیں دلوا سکی۔ اہل ہجیرہ کو اچھی طرح احساس ہو چکا ہے کہ سردار غلام صادق خان نے ہی حلقہ انتخاب میں 2001سے 2016تک حلقے کی عوام کو تمام بنیادی و تعلیمی سہولیات دلوائیں۔ جن روڈ، پکی سٹکیں، شہر کی تعمیر و ترقی۔ شہر میں پانی جیسی بنیادی سہولیات اور بالخصوص سکولز و کالجز دیے اورحلقہ انتخاب کے نوجوانوں کو روزگارکے مواقع دیے۔
سردار غلام صادق کی طرز سیاست نے عوام میں شعور، پارٹی قیادت سے وفا، بھٹو ازم کے فلسفہ اور نظریہ سے پختگی کی ایک مثال قائم کی۔ انہوں نے برادری ازم سے پاک عوام دوست رویہ کو متعارف کروایا یہی وجہ ہے کہ آج ہر پاٹی کارکن انکے کردار کو یاد کرتا ہے۔سردار غلام صادق نے حلقہ کی عوام کیساتھ غمی و خوشی میں شرکت کو اپنی زندگی کا اصول بنایا ہوا تھا۔ آج تیسری برسی پر عوام انکی خدمات کو یاد کرتے ہوئے خراج تحسین پیش کرتی ہے عوام انکی اخلاق، پیار و محبت اور کردار سے متاثر تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہمیشہ اپنے ذاتی مفاد پر عوامی مفاد کو ترجیع دی جوانکی کامیابی کا رازبھی تھا۔ 2001سے 2016سپیکر شپ تک انہوں نے اپنے زاتی اثاثوں میں عوام کا پیا ر، محبت، عزت اور کردار کمایا نہ کہ مالی اثاثوں میں اضافہ کیا۔ قومی سیاست میں شاہد ہی کوئی آج کے دور میں مثال ملتی ہو کہ MLA سے سپیکرشپ کے 15سالہ اقتدار میں جب دنیا سے رخصت ہوئے تو مبلغ 43000بینک بیلنس تھا۔
میراقصور صرف یہ ہے کہ میں سیاست کو محل سے نکال کر محلہ تک لے آیا ہوں۔(شہید ذولفقار علی بھٹو)
اقتدار عوام کا ہے اور عوام کا ہی رہنا چاہیے۔ (شہید ذولفقار علی بھٹو)
امن اور ملک مخالف قوتوں کو کچلنے کے لیے حقیقی جمہوریت ہی واحد حل ہے۔ (شہید بی بی بے نظیر بھٹو)
کچھ لوگ اس ملک پر فخر کرتے ہیں جہاں وہ رہتے ہیں اور کچھ لوگوں پر پورا ملک فخر کرتا ہے۔ (ابراہم لنکن)
ایک محب وطن کا خون قوم کی آزادی کے درخت کا بیج ہوتا ہے۔ (چی گوریرا)
Comments are closed.