سوڈان میں منصفانہ اور پائیدار امن کی سمت پیشرفت

تحریر:حسین عوض علی

دنیا بلا شبہ سوڈان میں ہونے والے المناک واقعات کا مشاہدہ کر رہی ہے، جو اپریل 2023 سے “ریپڈ سپورٹ فورسز” آر ایس ایف ملیشیا کی طرف سے سوڈانی عوام اور ریاست کے خلاف پراکسی جنگ کے نتیجے میں شروع ہوئے۔ یہ جنگ سوڈان، اس کی ریاست، آبادی اور ممکنہ طور پر اس کے نقشے کو ایک لالچی علاقائی طاقت کے ایجنڈے کے مطابق دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش کرتی ہے، اور بعض عالمی عناصر کی خاموش منظوری یا بے اعتنائی سے یہ سب ہو رہا ہے۔

بین الاقوامی برادری اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ ملیشیا کی طرف سے ہمارے لوگوں پر ڈھائے جانے والے سنگین مظالم اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ ہماری مسلح أفواج ایس اے ایف ملیشیا کو شکست دینے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ ایس اے ایف اس مسلط کردہ جنگ کو امن اور استحکام کی بحالی کے لیے ثابت قدمی کے ساتھ لڑ رہی ہے، تاکہ ہمارے لوگ اپنی زندگیوں کی دوبارہ تعمیر کر سکیں اور اس قومی اتحاد اور معاشرتی ڈھانچے کی مرمت کر سکیں جسے جنگ نے شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔

جنگ کیوں جاری ہے؟

یہ جنگ اس وقت تک جاری نہیں رہ سکتی تھی اگر ملیشیا کو کچھ علاقائی ممالک کی طرف سے لاجسٹک، سیاسی اور میڈیا کی مدد نہ ملتی۔ لہذا ہم سوڈان میں تمام امن پسند اقوام اور بین الاقوامی و علاقائی تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سوڈان کے داخلی معاملات میں بیرونی مداخلت کی غیر مشروط مذمت کریں اور ان ممالک سے مطالبہ کریں کہ وہ باغی ملیشیا کی مالی، اسلحہ اور کرائے کے فوجیوں کے ذریعے حمایت بند کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جنگ کے خاتمے کا سب سے مختصر راستہ ہے۔

ہم تمام اقوام، خاص طور پر اپنے برادر اور دوست ممالک سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ملیشیا کے جرائم اور مظالم کی مذمت کریں، ساتھ ہی اس کی جانب سے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کی بھی۔ ملیشیا کی طرف سے شہریوں کے تحفظ اور امداد کی فراہمی کے حوالے سے جدہ اعلامیہ کی خلاف ورزی ایک فیصلہ کن اور روک تھام کرنے والے بین الاقوامی ردعمل کا تقاضا کرتی ہے۔

امن کی تلاش

دوسری طرف سوڈان تمام سنجیدہ اقدامات کا خیرمقدم کرتا ہے جو امن اور استحکام کی بحالی کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ تاہم سوڈان جدہ پلیٹ فارم کے لیے اپنی وابستگی پر قائم ہے، جو جنگ بندی کے لیے مذاکرات کا فورم ہے۔ ہم جدہ پلیٹ فارم کی قراردادوں کے نفاذ پر اصرار کرتے ہیں، جن میں شہریوں کا تحفظ اور انہیں ان کے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دینا شامل ہے جو کہ جنگ بندی کے حتمی معاہدے تک پہنچنے کے لیے ایک لازمی شرط ہے۔

جدہ اعلامیہ انسانی مسائل کے حل اور شہریوں کے تحفظ کے لیے واحد لازمی اور عملی فریم ورک ہے۔ یہ جنگ بندی اور دیرپا امن کے لیے سب سے قابلِ عمل بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اگر اسے جنگ شروع ہونے کے صرف چار ہفتے بعد دستخط ہونے کے وقت سے مخلصانہ طور پر نافذ کیا جاتا تو یہ ابتدائی پرامن تصفیے کی طرف لے جا سکتا تھا۔ لہٰذا اس کو کمزور کرنے یا نظرانداز کرنے کی کوئی بھی کوشش بحران کے پرامن حل کو پٹڑی سے اتار دے گی۔

بدقسمتی سے بین الاقوامی برادری کے کئی بااثر ارکان کا ملیشیا کے اعلامیہ اور متعلقہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں، خاص طور پر قرارداد 2736 (2024) کی خلاف ورزیوں کے بارے میں نرم یا ہمدردانہ رویہ اختیار کرنا، صرف ملیشیا کی وقت خریدنے اور سنجیدہ امن معاہدوں سے بچنے کی حکمت عملی کو آگے بڑھاتا ہے۔

فوری قحط کا کوئی خطرہ نہیں

انسانی صورتحال کے حوالے سے، سوڈان ان لوگوں کی حفاظت اور ان تک امداد پہنچانے کے لیے پرعزم ہے جنہیں ضرورت ہے۔ تاہم مجھے یہ واضح کرنا ہوگا کہ سوڈان فوری قحط کا سامنا نہیں کر رہا، باوجود اس کے کہ ملیشیا ملک کے کچھ علاقوں میں آبادی کو بھوکا رکھنے کی مربوط اور جان بوجھ کر کی گئی مہم چلا رہی ہے۔

ملیشیا کی حکمت عملی میں اہم زرعی پیداوار والے علاقوں میں کاشتکاری سے روکنا شامل ہے، جیسے زرعی مشینری، بیج اور فصلوں کی چوری، آبپاشی کے لیے  نہروں کو روکنا، کسانوں کو دہشت زدہ کرنا، امداد کی ترسیل میں رکاوٹیں ڈالنا، اور بڑے فوڈ ویئر ہاؤسز کو لوٹنا۔ اس کے باوجود، وزارتِ زراعت اور اقوامِ متحدہ کی خصوصی ایجنسیوں کی طرف سے کیے گئے تازہ ترین مشترکہ سروے کے مطابق، ملک میں بنیادی اناج میں صرف معمولی کمی ہے، جو کبھی کبھار مختلف وجوہات جیسے بارش کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔احتیاطی منصوبے کے طور پر، ہم محفوظ ریاستوں میں مناسب مقدار میں جوار کاشت کریں گے جو کہ بنیادی غذا ہے.چاہے ان علاقوں میں اسے روایتی طور پر کاشت نہ کیا جاتا ہو۔ جہاں تک گندم کا تعلق ہے، جو بنیادی طور پر شہری مراکز میں کھائی جاتی ہے اس حوالے سےملک درآمدات پر انحصار جاری رکھے گا۔

انسانی چیلنج کو ایک مخصوص سرحدی راہداری پر منحصر دکھانا گمراہ کن ہے۔ فی الحال، امداد کی ترسیل کے لیے پانچ سرحدی راہداریاں کھلی ہیں، اس کے علاوہ سات بین الاقوامی ہوائی اڈے امدادی پروازوں کے لیے تیار ہیں۔ ڈاکٹرز بلا حدود   ایم ایس ایف   کے حالیہ بیان میں ملیشیا کی جانب سے ایلفاشر کے قریب ادویات اور خوراک سے بھرے ہوئے ٹرکوں کو چاڈ سے داخل ہونے کے بعد قبضے میں لینے کی بات کی گئی ہے. جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ ملیشیا کی طرف سے امداد کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے نہ کہ کسی مخصوص داخلی راستے کے استعمال کا۔ اس کے علاوہ، سوڈان بین الاقوامی برادری اور امدادی تنظیموں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی انسانی امداد کے وعدے پورے کریں۔ اب تک ان وعدوں کا صرف تقریباً 17  فیصد  ہی پورا کیا گیا ہے۔

میں آخر میں یہ دوبارہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم دسمبر 2019 کے شاندار انقلاب کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے پُرعزم ہیں، جنگ کے بعد جمہوریت کی طرف منتقلی اور ایک عبوری حکومت کے قیام کے لیے۔ اس حکومت کے سب سے اہم کام ملیشیاؤں کو ختم کرنا اور ایک متحد قومی فوج کے حق میں اقدامات کرنا ہوں گے، اور ساتھ ہی آزادانہ عام انتخابات کا انعقاد کرنا، تاکہ سوڈانی عوام اپنے رہنماؤں کا انتخاب کر سکیں اور اپنے بہتر مستقبل کے لیے امیدوں اور امنگوں کا اظہار کر سکیں۔

وزیر خارجہ، جمہوریہ سوڈان۔

    یہ مضمون وزیر کی طرف سے 5 اگست 2024 کو بین الاقوامی اسلامی مطالعات کے اعلیٰ ادارے، کوالالمپور، ملائیشیا میں پیش کردہ کا ترمیم شدہ اور تازہ ترین ورژن ہے۔

Activity - Insert animated GIF to HTML

Comments are closed.