اسلام آباد: امریکہ نے ایران کے خلاف ایک نئی اور بڑی پابندیوں کا اعلان کیا ہے، جس می100 سے زائد افراد، کمپنیوں اور جہازوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جو ایران کے تیل کی تجارت سے منسلک ہیں۔
یہ اقدام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران پر دباؤ بڑھانے کی کوششوں کا حصہ ہے، جو گزشتہ ماہ ایرانی نیوکلیئر تنصیبات پر امریکی فضائی حملوں کے بعد سامنے آیا ہے۔
امریکی حکام کے مطابق ان پابندیوں کا مقصد ایران کو تیل کی فروخت سے روکنا اور اس مالی امداد کو بند کرنا ہے جو ایرانی حکومت کو مضبوطی فراہم کرتی ہے۔
شہمخانی کا عالمی نیٹ ورک ہدف پر
پابندیوں میں خاص طور پر محمد حسین شہمخانی کو نشانہ بنایا گیا ہے، جو سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے مشیر علی شہمخانی کے بیٹے ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ نے الزام لگایا کہ شہمخانی نے ایک عالمی نیٹ ورک تشکیل دیا ہے، جو مختلف کمپنیوں اور ایجنٹس کے ذریعے ایرانی اور روسی تیل کو دنیا بھر میں بیچتا ہے۔
یہ نیٹ ورک مبینہ طور پر اربوں ڈالر کی غیر قانونی کمائی کرتا ہے، جسے ایرانی حکومت کے استحکام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
حکام نے اسے 2018 کے بعد سے سب سے بڑی ایران مخالف پابندی قرار دیا ہے۔
بین الاقوامی دائرہ کار اور معاشی اثرات
یہ پابندیاں 17 ممالک میں نافذ ہوں گی، جن میں 15 شپنگ کمپنیاں، 52 جہاز، 12 افراد اور 53 ادارے شامل ہیں۔
متاثرہ ممالک میں پاناما، اٹلی اور ہانگ کانگ شامل ہیں، جو ایران کی تیل اسمگلنگ کے مبینہ نیٹ ورک کا حصہ بتائے جا رہے ہیں۔
امریکی حکام کے مطابق ان پابندیوں سے ایران کے لیے تیل کی برآمد مزید مشکل ہو جائے گی۔
ایران کی تیل برآمدات پہلے ہی 18 لاکھ بیرل یومیہ سے کم ہو کر 12 لاکھ پر آ چکی ہیں، اور واشنگٹن کا ہدف اس تعداد کو مزید کم کرنا ہے۔
تاہم امریکہ نے کہا ہے کہ ان اقدامات سے عالمی تیل مارکیٹ پر طویل المدتی اثرات کی توقع نہیں۔
ایرانی ردعمل اور سفارتی تناؤ
ایرانی وزارت خارجہ نے پابندیوں کو “دشمنی کی ایک واضح مثال” قرار دیا ہے۔
ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا کہ یہ اقدام ایران کی اقتصادی ترقی اور عوامی فلاح کو نقصان پہنچانے کی سازش ہے۔
دوسری جانب یورپی یونین نے بھی رواں ماہ شہمخانی پر پابندیاں لگائی تھیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کی اقتصادی سرگرمیوں کے خلاف بین الاقوامی اتفاق رائے بڑھ رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے متنبہ کیا ہے کہ اگر ایران نے اپنے نیوکلیئر پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی تو مزید حملے کیے جائیں گے۔
اگرچہ امریکہ نے مذاکرات کے لیے دروازے کھلے رکھنے کی بات کی ہے، لیکن ایرانی اور یورپی سفارتکار اس امکان کو انتہائی کمزور قرار دے رہے ہیں۔
Comments are closed.