شہید اشرف صحرائی کا نام قربانی کا استعارہ ہے،سید صلاح الدین

شہید محمد اشرف صحرائی کا نام ہمیشہ آزادی پسندوں کے دلوں میں زندہ رہے گا۔یہ نام جدوجہد، قربانی، اور وقار کا استعارہ ہے۔سید صلاح الدین احمد۔ شہید محمد اشرف صحرائی ایثار، صبر، استقامت اور بے مثال عزم و ہمت کا پیکر تھے۔ ان کا پورا وجود جدوجہد، اخلاص، اور قربانی سے پر تھا۔محمد اشرف صحرائی ایک ایسے مردِ مجاہد تھے جنہوں نے نہ صرف فکر و نظریہ کی رہنمائی کی بلکہ عملی میدان میں بھی ہر مرحلے پر کشمیری قوم کی ترجمانی کی۔

ان خیالات کااظہار امیر حزب المجاہدین اور متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین احمد نے متحدہ جہاد کونسل کے ایک خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ شہید محمد اشرف صحرائی جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر میں صف اول کے رہنما اور اس کے سیاسی و پارلیمانی شعبے کے سربراہ رہے۔ بعد ازاں تحریکِ حریت جموں و کشمیر کے بانی رکن اور پہلے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، اور پھر اسی تحریک کے سربراہ مقرر ہوئے۔امام سید علی گیلانی کے دستِ راست کی حیثیت سے محمد اشرف صحرائی نے تحریکِ آزادی کے ہر موڑ پر اول صف میں رہ کر قیادت کی۔متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ نے کہا کہ ان کی استقامت کا ایک ناقابلِ فراموش پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی ذاتی زندگی کو بھی اسی جدوجہد پر قربان کیا۔ ان کے جوان بیٹے، جنید صحرائی نے بھی والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مسلح جدوجہد کی اور میدانِ جنگ میں قابض بھارتی افواج کا بے جگری سے مقابلہ کیا۔ جنید اعلی تعلیم یافتہ اور انتہائی سنجیدہ نوجوان تھا، مگر اس نے دنیاوی کامیابیوں کے بجائے اپنے قوم کی آزادی کو ترجیح دی۔ 19 مئی 2020 میں نواکدل سرینگر میں ایک معرکے کے دوران وہ جام شہادت نوش کرگئے۔بیٹے کی شہادت ایک باپ کیلئے بہت بڑا صدمہ ہوتی ہے، لیکن محمد اشرف صحرائی نے اس قربانی کو بھی وقار، صبر اور حوصلے سے قبول کیا۔ وہ نہ بکھرے، نہ جھکے، نہ کبھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹے۔ یہاں تک کہ قابض قوتوں نے انہیں بھی گرفتار کر کے کوٹ بلوال جیل میں ڈال دیا، جہاں 5 مئی 2021 میں انہوں نے خود بھی جامِ شہادت نوش کیا۔سید صلاح الدین احمد نے کہا کہ باپ اور بیٹے کی یہ مشترکہ قربانی کشمیری قوم کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ ان کی زندگیاں اور شہادتیں اس بات کا اعلان ہیں کہ ظلم جتنا بھی طاقتور ہو، حریت کی روح کو شکست نہیں دی جا سکتی۔سید صلاح الدین احمد نے اپنے تعزیتی کلمات کا اختتام علامہ اقبال کے اس شعر پر کیا کہ ،،ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے ۔۔بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

Comments are closed.