بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کا دعوی ہے کہ جموں وکشمیر میں بھارت مخالف حالات میں 80فیصد کمی مشاہدے میں آئی ہے،بھارتی وزیر داخلہ کے اس دعوے کے تناظر میں یہ سوال امیت شاہ سمیت بھارتی حکمرانوں کا پیچھا کرتا رہے گا کہ اگر بھارتی وزیر داخلہ اپنے دعوی میں درست ہیں تو پھر مقبوضہ جموں وکشمیر کے چپے چپے پر دس لاکھ بھارتی فوجی کس لیے دندناتے پھررہے ہیں جبکہ پوری دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر دنیا کا سب سے زیادہ فوجی تعیناتی والا خطہ ہے ۔جس کے نتیجے میں مقبوضہ جموں وکشمیر نہ صرف ایک فوجی چھاونی کا منظر بلکہ دنیا کی سب سے بڑی جیل اور اس جیل میں پچانوے لاکھ کشمیری قیدی بنائے جاچکے ہیں۔یہاں جگہ جگہ قائم بھارتی فوجی کیمپ اور چھاونیاں بھارتی حکمرانوں کے دعووں کا منہ چڑھا رہی ہیں۔ دنیا کا ہر باشعور شخص اس بات سے بخوبی آگا ہ ہے کہ مقبوضہ خطے کو اس کے اپنے باشندوں کیلئے ایک جہنم میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔خاصکر 05اگست2019میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد نہ صرف اہل کشمیر پر فوجی محاصرہ مسلط کیا گیا بلکہ اس کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے اقدامات بڑی سرعت کیساتھ جاری ہیں،جن میں نت نئے قوانین کے ذریعے غیر ریاستی باشندوں کیلئے ڈومیسائل کا اجرا،جن کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے،کے علاوہ آئے روز کشمیری عوام کی زرعی آراضی ،باغات،رہائشی مکانات ، دوسری تعمیرات اور جائیداد کو قبضے میں لینا،مسلمان کشمیری سرکاری ملازمین کوان کی نوکریوں سے برطرف اور پھر انہیں اپنی صفائی کا کوئی موقع پیش کرنے سے محروم کرنا مقبوضہ جموں وکشمیر کی جغرافیائی حیثیت تبدیل کرنے کا ہی خطرناک اور مذموم اقدام ہے۔جبکہ بھارتی اقدامات کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کرنے والے کشمیریوں پر پبلک سیفٹی ایکٹ،PSA اور UAPA جیسے کالے قوانین کا اطلاق عمل میں لاکر انہیں بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں میں برسوں سڑایا جاتا ہے،تاکہ کشمیری عوام میں بحیثیت مجموعی ڈر اور خوف پیدا کرکے خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے۔بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کا دعوی اگر وقتی طور پر درست بھی مان لیا جائے کہ جموں وکشمیر میں حالات نے پلٹا کھایا ہے اور بھارتی حکمران اسی تناظر میں ایک بیانیہ گھڑنے کی بھی کوشش کررہے ہیں تو صوبہ جموں کے دور دراز پہاڑی سلسلوں سے لیکر مقبوضہ وادی کشمیر کے ہموار میدانی علاقوں میں ہر دوسرے دن بھارتی فوجی آپریشن کس بات کی غمازی کرتے ہیں۔
کشمیری عوا م کے معصوم نوجوانون کو دوراں حراست تشدد میں شہید کرنے سے لیکر فوجی ناکوں پر گاڑیوں کی چیکنگ کے دوران کشمیری نوجوانون کو ان کی زندگیوں سے محرو م کرنا مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات میں بہتری کے دعوے اور بیانیہ دھڑام کرکے زمین بوس ہوجاتے ہیں۔پانچ فروری کو بلاور کٹھوعہ میں ایک 25 سالہ نوجوان مکھن دین جہاں بھارتی پولیس کی بدنام زمانہ سپیشل آپریشن گروپ ” SOG ” کی حراست میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں،وہیں 09 فروری کو وسیم میر سرینگر بارہمولہ شاہراہ پر سنگرامہ سوپور کے مقام پر بھارتی فوجیوں کی براہ راست فائرنگ کا نشانہ بن کر موقع پر ہی دم توڑتے ہیں،وہ ایک ٹرک ڈرائیور تھے اور اس کے ٹرک کو بھارتی فوجیوں نے بغیر کسی وجہ اور جواز کے فائرنگ کا نشانہ بنایا۔عینی شاہدین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وسیم کو درست نشانہ بنا کر قتل کیا گیا،کیونکہ اس کے سر میں گولیاں لگی تھیں۔جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وسیم کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا،جو مقبوضہ جموں وکشمیر میں تعینات بھارتی فوجیوں کا معمول ہے۔مکھن دین اور وسیم میر کے گھروالوں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر اس بات کا کھل کر اظہار کیا کہ ان کے بیٹوں کو ایک منصوبے کے تحت قتل کیا گیا۔جس کی گونج بھارتی پارلیمنٹ میں سنائی دی گئی،جب شمالی کشمیر سے منتخب بھارتی ممبر پارلیمنٹ انجینئر رشید نے بھوک ہڑتال کے نتیجے میں عدالت کی جانب سے رہائی پر بھارتی پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کرکے مکھن دین اور وسیم میر کے ماورائے عدالت قتل کا معاملہ بھارتی ممبران پارلیمنٹ کے سامنے اٹھاکر اس بات کا بڑے ہی دکھ اور بوجھل دل کیساتھ تذکرہ کیا کہ آخر کشمیری نوجوانوں کو جرم بیگناہی کی پاداش میں قتل کرنے میں ملوث بھارتی فوجی ہمیشہ سزا سے کیوں بچ جاتے ہیں۔انجینئر رشید کی گفتگو کے دوران بی جے پی ممبران پارلیمنٹ نے شور شرابا کرکے ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی البتہ انجینئر رشید اپنا پیغام پورے بھارتی عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔نہ بلاور کٹھوعہ اور نہ ہی سنگرامہ سوپور کے ماروائے عدالت قتل کے واقعات کی تحقیقات کی ضرورت محسوس کی گئی اور نہ ہی ان قتل کے واقعات میں ملوث مجرموں کو سزا تو دور کی بات ان کی سرزنش بھی نہیں کی گئی۔ پوری آزادی پسند قیاد ت کو بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند کرکے ان کیساتھ پیشہ ور مجرموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے،حال ہی میں سرینگر اور مقبوضہ وادی کشمیر کے دیگر علاقوں میں کتابوں کی درجنوں دکانوں پر بھارتی پولیس نے چھاپے مار کر معروف عالم دین اور جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلی مودودی اور تحریک آزادی جموں وکشمیر کے قائد شہید سید علی گیلانی کی سینکڑوں تصانیف ضبط کرلی ہیں۔قابض بھارتی انتظامیہ نے ان چھاپوں کے دوران ضبط کی گئی تصانیف کیلئے یہ جواز پیش کیا کہ کتابوں کی ضبطی کا مقصد کالعدم تنظیموں کے نظریے کو فروغ دینے والے لٹریچر کی خفیہ فروخت اور تقسیم کو روکناہے۔جس پر اپنے تو اپنے پرایوں نے بھی سخت برہمی کا اظہار کیا ہے کہ گلوبل ولیج اور ڈیجیٹل دور میں تصانیف ضبط کرنا ایک مضحکہ خیز عمل ہے کہ جب ہر قسم کا مواد آن لائن موجود ہے ،تو تصانیف کی ضبطی بوکھلاہٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
مقبوضہ جموں وکشمیر میں بندوق کے بل پر مسلط کی جانے والی قبرستان جیسی خاموشی کے بعد بھارتی حکمران یہ دعوی کرکے کوئی شرم اور عار محسوس نہیں کرتے کہ حالات میں 80 فیصد بہتری آچکی ہے۔ان کی ذہنی حالت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے،کہ وہ کسقدر فکری ارتداد اور ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں۔فی زمانہ کشمیری عوام کے تدبر اور تفکر کی گواہی دیتا ہے کہ انہوں نے حالات کے تمام تر جبر کے باجود نہ اپنی لاکھوں قربانیوں کیساتھ بے وفائی کی اور نہ ہی بھارت کے سامنے سر تسلیم خم کیا ۔بھارت کا توپ و تفنگ اہل کشمیر کو اپنی تحریک آزادی سے نہ ماضی میں دستبردار کراسکا اور نہ مستقبل میں اس کا کوئی امکان ہے۔بھارتی حکمران ظلم و جبر سے اہل کشمیر کی سانسوں پر پہرے تو بٹھا سکتے ہیں لیکن ان کے دلوں سے بھارت کی نفرت اور غم وغصے کو ختم نہیں کرسکتے ،بھارتی حکمران تمام حربے آزماچکے ہیں،انہیں ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔وہ اہل کشمیر کی تحریک آزادی کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی بھرپور کوششیں کرتے ہیں،البتہ ان کی دال نہیں گلتی،کیونکہ بھارتی بربریت کے نتیجے میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں پانچ سو سے زائد قبرستان وں میں سونے والے کشمیری بزرگ،جوان اور بچے اس بات کا اعلان کررہے ہیں کہ اہل کشمیر کی جدوجہد نہ صرف اپنی برپا کردہ ہے بلکہ آج بھی اہل کشمیر کے گبرو جوان ہی اس جدوجہد کی کامیابی اور بھارت کے جابرانہ قبضے کے خاتمے کیلئے اپنی جوانیاں قربان کرنے میں پیش پیش ہیں۔کشمیری عوام کی یہ قربانیاں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں جدوجہد آزادی کو اسپانسرڈ قرار دینے کی بھارتی کوششوں کا مقصد اس کی عالمی سطح پر قانونی حیثیت کو نقصان پہنچانا ہے۔
ایک دنیا گواہ ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیرکے عوام اقوام متحدہ کی جانب سے وعدہ کردہ اپنے حق خود ارادیت کے حصول کیلئے ایک جائز جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔جبکہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں جاری تحریک آزادی کا مقامی کردار اس کے عوام کی روزانہ کی بنیاد پر دی جانے والی قربانیوں سے عبارت ہے۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو عالمی سطح پر جائز اور درست تسلیم کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ اقوام متحدہ کا چارٹر اہل کشمیر کی مسلح جدوجہد کو جائز ٹھراتا ہے،کیونکہ بھارت کی مقبوضہ جموں وکشمیر میں موجودگی ایک غاصب اور جابر کے سوا کچھ نہیں اور اس کے اقدامات کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی اپنی سرزمین کو غاصبانہ قبضے سے چھڑانے کیلئے جدوجہد آزادی کو سپانسرڈ ٹھرانا دنیا کو دھوکہ دینے اور اس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام بھارتی کوشش ہے۔بھارتی حکمران جن کی انا،بے جا ضد اور ہٹ دھرمی نے نہ صرف اس پورے خطے کے امن کو شدید خطرات سے دوچار کیا ہے،بلکہ مسئلہ کشمیر اب ایک ایٹمی فلیش پوائنٹ میں تبدیل ہوچکا ہے،جس کی چنگاری اس خطے کیساتھ ساتھ پوری دنیا کے امن کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کرسکتی ہے۔ان حالات میں عالمی برادری باالخصوص اقوام متحدہ پر لازم ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں،جو 78برسوں سے حل طلب ہے،جس کے نتیجے میں کشمیری عوام کی چار نسلیں متاثر ہوئیں۔البتہ یہ بات بھی حوصلہ افزاء ہے کہ اہل کشمیر اپنی تحریک آزادی کیساتھ وابستہ ہیں اور سرزمین جموں وکشمیر کو بھارت کے ناجائز قبضے سے چھڑانے کیلئے جاری تحریک آزادی ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔
Comments are closed.