نریندرا مودی کا ادھورا خواب اور نفرت میں لپٹا بھارت

تحریر: محمد شہباز

بھارت میں رواں برس 19 اپریل سے یکم جون تک سات مراحل میں بھارتی ایوان زیریں لوک سبھا کیلئے انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔یوں 90کروڑ 70 لاکھ کے قریب بھارتیوں نے ان انتخابات میں حصہ لیکر حق رائے دہی کا استعمال کرکے اپنے لیے امیدواروں کا چناو کیا ہے۔گو کہ ہر ملک اور وہاں رہنے والے لوگوں کا حق ہے کہ وہ اپنے بہتر مستقبل کیلئے ایسے افراد کو منتخب کریں جو ان کی فلاح وبہبود اور انہیں غربت و پسماندگی سے باہر نکالنے کیلئے کام اور کوشیش کریں،تاکہ وہ بھی اچھی زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں۔اس پر دو رائے نہیں اور نہ ہی کسی کو اعتراض ہوسکتا ہے۔البتہ بھارت ایک ایسا ملک ہے جو کثیر القومی اور نسلی ذات پات پر یقین رکھتا ہے۔جو خود کو سیکولر بھی کہلاتا اور کہلوانا بھی پسند کرتا ہے مگر جدید دور میں سیکولرازم کی جو تعریف ہے بھارت اس پر پورا نہیں اترتا۔بھارت میں 20 سے 22 کروڑ مسلمان آباد ہیں۔جو کہ بھارت کی دوسری بڑی آبادی ہے۔” دلت “جو ہندوئوں کی ہی ایک ذات ہے لیکن انہیں وہ حقوق اور سہولیات میسر نہیں ہیں جو اعلی ذات کے ہندوئوں کو حاصل ہیں۔پھر عیسائی،سکھ،پارسی،شودر،بودھ اور کیشتری بھی بھارتی آبادی کا بڑا حصہ ہیں۔یہ سب اقلیتیں بھارتی ایوان اقتددار کی رہداریوں سے ہنوز دور اور ان کیلئے نہ تعلیم اور نہ ہی روز گار کے در کھلتے ہیں اور اعلی ذات کے ہندو ہی بھارت میں سیاہ سفید کے مالک ہیں۔گو بھارت میں صدیوں سے یہی روایت چلی آرہی ہے البتہ رہی سہی کیسر مودی اور BJP نے پوری کی ہے۔2014 میں جب مودی اقتدار کے راج سنگھاسن پر فائز ہوئے تو ہندو انتہاپسندوں کو نہ صرف کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کیا گیا بلکہ ان کی نکیل ایکدم ڈھیلی چھوڑی گئی۔2014 سے 2019 تک ہندتوا ایجنڈے کیلئے میدان ہموار کیا گیا اور پھر جب 2019 میں پلوامہ واقع کو بی جے پی نے خوب کیش کرایا اور پہلی مرتبہ بھارتی انتخابات میں اکیلے 303 سیٹیں جیتیں۔جس کے بعد مودی نے نہ آو دیکھا نہ تاو۔سب سے پہلے 05 اگست2019میں مقبوضہ جموں و کشمیر پر چڑھ دوڑے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی آئین میں برسوں سے موجود دو شقیں آرٹیکل 370 اور 35 اے کو بیک جنبش قلم خاتمہ کرکے مقبوضہ جموں وکشمیر کے حصے بخرے کیے۔لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کیا گیا اور دونوں مقامات پر لیفٹینٹ گورنز کی تعیناتی عمل میں لائی گئی۔اہل کشمیر کی سانسوں پر بھی پہرے بٹھائے گئے۔بات انہی دو آرٹیکلز کے خاتمے پر نہیں رکی۔اہل کشمیر کیساتھ ساتھ آزادی پسند جماعتوں کو زیر عتاب لایا گیا۔ان کی زیر استعمال ملکیت جن میں تعلیمی ادارے ،مدرسے اور اس سلسلے میں خریدی گئی جائیداد بھی قبضے میں لی گئی،جس میں جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر سرفہرست ہے۔کشمیری عوام کی جائیداد واملاک اور رہائشی مکانوں پر قبضہ کرنا اب روایت بن چکی ہے۔آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد بھارتی مسلمانوں کو دیوار کیساتھ لگانے کیلئے متنازعہ شہریت ترمیمی بل متعارف کرایا گیا۔جس میں پڑوسی ممالک خاص کر پاکستان،بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھارت آنے والے مسلمانوں کی شہریت ختم کی گئی۔ان کیلئے کنسٹریشن کیمپ پہلے سے قائم کیے گئے۔بھارتی مسلمانوں نے اس پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا ،جو بی جے پی اور مودی کیلئے غیر متوقع تھا۔دہلی کا شاہین باغ مزاحمت کا استعارہ ثابت ہوا،جہاں مسلمانوں کیساتھ ساتھ ہندومکتبہ فکرکیساتھ وابستہ لوگ بھی شریک ہوئے۔تو فروری 2020 میں دہلی میں مسلم کش فسادات کروائے گئے ۔بھارتی ریاست اترپردیش میں بی جے پی کے کٹر ہندو وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ مسلمانوں کا کھلے عام قتل عام اور ان کی دکانیں اور مکانات کو دن دیہاڑے بلڈوزر سے ملیا میٹ کرنے لگا۔ عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد کا پولیس حراست میں لائیو کوریج کے دوران ہندوتوا انتہا پسندوں نے قتل کیا اور پھر جیے شری رام کے نعرے لگانے کے بعد آرام سے نکل گئے۔حالانکہ عتیق احمد کئی بار بھارتی ممبر پارلیمنٹ بھی رہ چکے تھے۔اترپردیش اسمبلی کے سابق ممبر سانسد مختار انصاری کو رواں برس 24 مارچ کو جیل میں رکھ کر ان کا حراستی قتل کیا گیا۔یوگی ادتیہ ناتھ بلڈوزر بابا کا لقب بھی پاگیا۔مسلمانوں کو ہجومی تشددکا سرعام نشانہ بنایا جانے لگا۔کبھی گائے لے جانے کے نام پر ،کبھی لو جہاد تو کبھی گھر واپسی اور اسلامی شعائرحجاب پر پابندی ۔غرض بھارتی مسلمانوں کیلئے زمین تنگ کردی گئی اور پھر 19 اپریل کو پورے بھارت میں انتخابی بغل بج گیا۔مودی نے اپنی پوری انتخابی مہم میں مسلمانوں کو اپنے نشانے پر رکھ لیا۔انہیں گالیاں دینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی۔اپنے سیاسی حریفوں کو صلواتیں سناتے رہے۔دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجروال جو کہ عام آدمی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں انہیں عین انتخابات سر پر آنے کے وقت اپنی تحقیقاتی ایجنسی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹED سے گرفتار کروایا اور پھر عدالتوں سے ان کی ضمانت بھی نہیں ہونے دی۔جس پر انہیں بھارتی سپریم کورٹ کا دروازہ کٹھکٹھانا پڑا اور انہیں 31مئی تک عارضی ضمانت دیکر یکم جون کو تہاڑ جیل میں خود سپردگی کا حکم دیا گیا۔بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس کا بینک اکاونٹ بھارتی الیکشن کمیشن سے بند کروایا گیا،گوکہ کانگریس بھارتی سپریم کورٹ میں بھی گئی لیکن وہاں بھی اس سے کوئی ریلیف نہیں مل سکا۔

بی جے پی بالعموم اور نریندرا مودی نے بالخصوص اب کی بار 400 پار کا بہت وزنی نعرہ زورو شور لگایا۔جس کے پیچھے بقول بھارتی اپوزیشن جماعتوں کے مودی بھارتی آئین کا حلیہ بگاڑ کر بادشاہ بننا چاہتا ہے۔لہذا بھارتی اپوزیشن نے بھارتی آئین بچانے کے نعرے سے انتخابی مہم کا آغاز کیا۔یکم جون کو بھارتی انتخابات کا ساتواں مرحلہ جب اختتام پذیر ہوا تو پورے بھارت میں ایگزٹ پول کے نام پر اکیلے بی جے پی کو 350 سے 390سیٹیں ملنے کی پیشن گوئی کی گئی۔بھارتی میڈیا جو کہ پوری دنیا میں گودی میڈیا کے نام سے جانا جاتا ہے،گلہ پھاڑ پھاڑ کر اس ایگزٹ پول پیشن گوئی کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہا تھا۔جس کااثر مودی پر بھی ہوا اور انہوں نے بھارتی اپوزیشن کو ٹھگ اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازا۔ اس کے جواب میں کانگریس رہنما راہول گاندھی اور اروند کیجروال نے ایگزٹ پول کو مسترد کرتے ہوئے اس سے مودی پول قرار دیا۔پھر جب 04 جون کی صبح EVM الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں کھل گئیں تو نہ صرف ایگزٹ پول کے تمام دعوے غلط اور من گھڑت ثابت ہوئے بلکہ BJP بھی منہ کے بل زمین پر آگری۔بی جے پی سادہ اکثریت سے بھی کوسوں دور اوراس کی 240 پر بریک لگی۔مودی کا منہ دیکھنے کے قابل تھا۔اتر پردیش جہاں بھارتی لوک سبھا کیلئے سب سے زیادہ سیٹیں 80ہیں ،میں سے اکثریت اکھلیش یادیو کی سماج وادی پارٹی اور کانگریس نے حاصل کی ہیں۔بڑے بڑے برج الٹ گئے اور مودی کی سابقہ کابینہ کے اکثر وزیر شکست سے دوچار ہوئے۔بی جے پی اور اس کے اتحادی بڑی مشکل سے 294ہندسے تک پہنچ پائے جبکہ 2014 کے بعد کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتوں نے 234 نشستیں حاصل کیں اور یوں مودی کے تمام خواب چکنا چور ہوگئے۔نتائج آنے کے فورا بعد راہول گاندھی نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں کسی لگی لپٹی کے بغیر کھل کر ا س بات کا خلاصہ کیا کہ گوکہ بھارت کی اپوزیشن جماعتوں کے ہاتھ پائوں باندھے گئے تھے۔گرفتاریاں عمل میں لائی گئی تھیں۔بھارتی ایجنسیاں ،ادارے اور آدھی عدلیہ ہمارے یعنی اپوزیشن کے خلاف تھیں لیکن پھر بھی ہم نے میدان مار لیااور بھارتی عوام نے بھارتی آئین کو بگاڑنے سے بچانے میں کردار ادا کیا لہذا سارا کریڈیٹ بھارتی عوام کو جاتا ہے۔جس نے مودی کو وہ کام کرنے سے روکا جس کا وہ برسوں سے خواب دیکھ رہے تھے۔بھارتی اپوزیشن نے مودی کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔تاہم مودی نے 09جون کو تیسری مرتبہ بھارتی وزارت عظمی کے عہدے کا حلف اٹھا لیا اور یوں وہ سابق بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے بعد دوسرے بھارتی ہیں ،جو تیسری مدت کیلئے بھارتی وزیر اعظم بن گئے۔مودی تیسری بار بھارتی وزیر اعظم تو بن گئے البتہ تاریخ کے کمزور ترین وزیر اعظم ہیں۔وہ بھارتی حکمران اتحاد میں شامل دو اہم جماعتوں این چندرابابو نائیڈو کی تیلگو دیشم پارٹی اور جنتا دل یونائیٹڈ کے مرہون منت ہیں۔جو بھارتی لوک سبھا میں بالترتیب 16 اور12سیٹیوں کی حامل ہیں۔یہ دونوں جماعتیں بی جے پی کا اقلیت دشمن ایجنڈا نہیں رکھتی ہیں اور جنتا دل یونائیٹڈ نے تو اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعتNDA حکومت کا حصہ ہونے کے ناطے ہر قسم کی مسلم دشمن یا اقلیت دشمن مہم کی سختی سے مخالفت کرے گی۔ جنتا دل یونائیٹڈ کے ترجمان کے سی تیاگی نے یہ بیان حالیہ بھارتی پارلیمانی انتخابات کی الیکشن مہم کے دوران بی جے پی کی بیان بازی خاص طور پر نریندرا مودی کی طرف سے مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کے باعث بڑھتے ہوئے خدشات کے پیش نظردیا ہے۔ کے سی تیاگی نے مسلمانوں میں JDUکی ساکھ کا حوالہ دیتے ہوئے نئی بھارتی حکومت میں اقلیتی برادریوں کے خلاف کسی قسم کی تفرقہ انگیز کارروائیوں کو روکنے کا عزم ظاہر کیا۔ان دونوں جماعتوں نے حصہ بقدر جثہ کے برعکس مودی کابینہ میں ٹھیک ٹھاک وصول کیا ہے۔مودی اب زمین پر آچکا ہے اور صرف اپنی حلف برداری کے دوسرے روز ہی مرلی منوہر جوشی کے پاس پہنچا اور وہاں معافی تلافی کی۔ابھی تو شروعات ہے ،نہ جانے مودی کو اپنا کمزور ترین اقتدار بچانے کیلئے کس کس کے چرنوں میں بیٹھنا پڑے گا۔

طرفہ تماشہ یہ کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی بھارتی پارلیمانی انتخابات کرائے گئے۔جو کہ 05 اگست 2019 کے بعد ایسے پہلے انتخابات تھے۔06 پارلیمانی حلقوں میں مقبوضہ وادی کشمیر میں تین،صوبہ جموں میں دو اور لداخ میں ایک سیٹ کیلئے پولنگ کرائی گئی۔BJP وادی کشمیر سے اپنا کوئی امید وار کھڑا نہیں کرسکی البتہ حلقہ شمالی کشمیر میں اس کی پراکسی سجاد لون الیکشن میں حصہ لے رہا تھا اور اس سے حکومتی مشینری کی مکمل تائید و حمایت حاصل تھی۔نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ بھی اسی حلقے سے الیکشن لڑرہا تھا۔لیکن لنگیٹ ہندواڑہ سے سینکڑوں میل دور تہاڑ جیل میں انجینئر رشید جو 09 اگست2019 سے کشمیری حریت پسندوں کو فنڈنگ کرنے کے الزام میں قید ہیں ،سجاد لون اور عمر عبداللہ کو بری طرح پچھاڑ چکا ہے۔ان کے جلسوں میں نوجوانوں کا جوش اورجس کشمیر کو خون سینچا وہ کشمیر ہمارا ہے جیسے نعرے اس بات کی غمازی کررہے تھے کہ اہل کشمیر 05 اگست 2019 میں مودی کے فیصلے کو آسانی سے ہضم نہیں کرسکے اور اس کا اچھا خاصا جواب بیلٹ سے دینا ضروری سمجھا گیا۔جس پر تجزیہ نگاروں نے الفاط چبائے بغیر کہا ہے کہ بھارت خاص کر مودی اہل کشمیر کے اس پیغام کو سمجھیں جو واضح اور بڑے ہی زور دار انداز میں سامنے آچکا ہے کہ کشمیری عوام آخر کیا چاہتے ہیں؟تجزیہ نگاروں نے اس سے ابتدا ء قرار دیا ہے اور انتہا ہونا ابھی باقی ہے۔گو کہ انجینئر رشید تحریک آزادی کشمیر کے کوئی رہنما نہیں ہیں ،وہ اس سے قبل بھی دو بار مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں۔انہوں نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کی ہے۔وہ سید علی گیلانی کو اہل کشمیر کا بلا شرکت غیرے قائد مانتے تھے۔وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتے تھے کہ جناب سید محمد یوسف شاہ کو کس جبر نے سید صلاح الدین احمد بننے پر مجبور کیا۔وہ بھارتی جیلوں میں قید کشمیری نوجوانوں کی رہائی کی وکلالت کرتے رہے۔ان پر ریاستی اسمبلی میں BJPغنڈے حملہ آور بھی ہوئے۔بھارتی دارالحکومت دہلی میں ان کے چہرے پر سیاہی بھی پھینکی گئی،جس پر انہوں نے کہا تھا یہ گاندھی کا نہیں بلکہ مودی کا بھارت ہے۔ وہ ٹی وی ٹاک شوز میں بھارتی سیاستدانوں کیساتھ ساتھ بھارتی اینکروں کے بھی لتے لیتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ تہاڑ جیل میں ہوتے ہوئے بھی پانچ لاکھ کے قریب ووٹ انہیں پڑے ہیں۔اسی کو کہتے ہیں زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو ۔بھارتی حکمرانوں کیلئے یہ وقت ہے کہ وہ کشمیری عوام کے مزاج کو سمجھیں اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔

Comments are closed.