ترکیہ، روس، چین اور قطر سمیت کئی ملکوں نے فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے تہران میں قتل کی مذمت کی ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس شہادت کے بعد غزہ میں جاری جنگ کا تنازع خطے میں پھیل سکتا ہے۔
اسماعیل ہنیہ ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے جہاں وہ بدھ کی علی الصباح قاتلانہ حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
ہنیہ کی شہادت کے بعد ایران کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
ترجمان ایرانی وزارتِ خارجہ ناصر کنعانی کے مطابق اسماعیل ہنیہ کی موت سے فلسطین اور مزاحمت سے ایران کا تعلق مزید مضبوط ہوگا۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے بھی ایک بیان میں اسماعیل ہنیہ کی موت کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ایک بزدلانہ اقدام اور خطرناک پیش رفت ہے۔
خبر رساں اسارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اسماعیل ہنیہ کے صاحب زادے عبد السلام ہنیہ نے ایک بیان میں کہا کہ ان کے والد چار بار قاتلانہ حملوں میں محفوظ رہے تھے۔ آج ان کو وہ موت ملی جس کی وہ خواہش رکھتے تھے۔
قطر نے اسماعیل ہنیہ کی موت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس قتل کو گھناؤنا جرم اور کشیدگی میں خطرناک اضافے کا سبب سمجھتا ہے۔
قطری وزارتِ خارجہ کے مطابق یہ اقدام بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے قوانین کی بھی خلاف روزی ہے۔
چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لی جیان نے ایک بیان میں حماس کے رہنما کی موت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بیجنگ کو اس واقعے پر شدید تشویش ہے۔
بیان میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس واقعے سے ہو سکتا ہے خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہو۔ غزہ میں جلد از جلد جامع اور مستقل جنگ بندی ہونی چاہیے۔
ترکیہ کی وزارتِ خارجہ نے اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ “ایک بار پھر ثابت ہوا کہ اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی حکومت قیام امن کی خواہش مند نہیں ہے۔”
خبر رساں ادارے ’انادولو‘ کی رپورٹ کے مطابق ترک وزارتِ خارجہ نے بیان میں متنبہ کیا کہ اگر عالمی برادری نے اسرائیل کو روکنے کے اقدامات نہ کیے تو خطے کو مزید بڑے تنازعات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بیان کے مطابق ترکیہ فلسطینی عوام کے مقاصد کی حمایت جاری رکھے گا۔
Comments are closed.