بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو گزشتہ سال حکومت مخالف مظاہروں کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور مظاہرین کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے سزائے موت سنادی۔ فیصلہ ان کی غیر موجودگی میں سنایا گیا جبکہ ڈھاکہ میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔
ٹریبونل کا بڑا حکم
جسٹس غلام مرتضیٰ مجمدار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا۔ دیگر ججوں میں جسٹس شفیع العالم محمود اور جج محیط الحق انعام چوہدری شامل تھے۔
ٹریبونل نے 453 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے شیخ حسینہ واجد کو انسانیت کے خلاف جرائم کی دفعات کے تحت مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی۔
الزامات اور مقدمے کی کارروائی
شیخ حسینہ پر الزام تھا کہ گزشتہ سال جولائی میں طلبہ کی قیادت میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران انہوں نے طاقت کے غیر قانونی استعمال کی اجازت دی، جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے مطابق 1,400 افراد ہلاک ہوئے۔استغاثہ نے شیخ حسینہ کے لیے سزائے موت کی درخواست کی تھی، جسے آج منظور کر لیا گیا۔
ڈھاکہ میں سخت سکیورٹی
فیصلے کے موقع پر ان مظاہروں میں مارے جانے والے سینکڑوں افراد کے لواحقین بھی عدالت میں موجود تھے۔ڈھاکہ بھر میں ممکنہ ردعمل کے پیش نظر پولیس، ریپڈ ایکشن بٹالین اور بارڈر گارڈ فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔
شیخ حسینہ کا ردعمل
بھارت میں پناہ لیے ہوئے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے فیصلہ سننے کے بعد سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا:“عدالت جو چاہے فیصلہ کرے، مجھے پرواہ نہیں۔ تمام الزامات جھوٹے ہیں۔ اللہ نے زندگی دی ہے، وہی لے گا۔ میں بنگلہ دیشی عوام کے لیے کام جاری رکھوں گی۔”انہوں نے کہا کہ وہ اپنے خاندان کے قتل، گھر جلائے جانے اور جماعت کے کارکنوں پر کئے گئے مظالم کو کبھی نہیں بھولیں گی۔ان کا کہنا تھا: “ہم سب یاد رکھیں گے اور حساب ضرور ہوگا۔ میرے کارکن پریشان نہ ہوں، یہ وقت کی بات ہے۔”
سیاسی اثرات اور علاقائی خدشات
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ فیصلہ بنگلہ دیش کی سیاست کو بڑی سطح پر متاثر کرے گا۔حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ پہلے ہی ان الزامات کو سیاسی انتقام قرار دے چکی ہے، جبکہ ملک میں مزید بدامنی اور سیاسی کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے۔علاقائی سطح پر بھی یہ فیصلہ جنوبی ایشیا میں نئی سفارتی پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے، خصوصاً اس وقت جب حسینہ واجد بھارت میں موجود ہیں اور کھلے عام اپنی بے گناہی کا اعلان کر رہی ہیں۔
Comments are closed.