“کیا فوجی عدالتوں کو عدالت کہا جا سکتا ہے؟”جسٹس جمال کا اہم سوال

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سویلین شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کے دوران اہم قانونی نکات زیرِ بحث آئے، جہاں جسٹس جمال مندوخیل نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ “سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟”

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ اس حساس نوعیت کے معاملے پر سماعت کر رہا ہے۔ سماعت کے دوران خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ فوجی عدالتیں قانون کے تحت قائم ہیں اور ان میں منصفانہ ٹرائل کی مکمل ضمانت موجود ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے ماضی کے فیصلوں، بالخصوص لیاقت حسین کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی نظیریں موجود ہیں جن کے مطابق سویلین کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فوجی عدالتوں کا نظام نہ صرف مروجہ فوجداری قوانین پر مبنی ہے بلکہ فئیر ٹرائل کے تمام تقاضے بھی پورے کیے جاتے ہیں۔ خواجہ حارث کے مطابق فوجی عدالتیں خصوصی دائرہ اختیار رکھتے ہوئے فوجداری ٹرائل کرتی ہیں اور ان کے افسران باقاعدہ حلف اٹھاتے ہیں تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے زور دے کر کہا کہ آئین کا آرٹیکل 175 ہی واحد آرٹیکل ہے جو عدالتوں کے قیام کا جواز فراہم کرتا ہے، اگر فوجی عدالتیں واقعی عدالتیں ہیں تو یہ آرٹیکل دوبارہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے خواجہ حارث کے لیے نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر وقت کی کمی اُن کے سوالات کی وجہ سے ہے تو وہ اپنا سوال واپس لے لیتی ہیں۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کل کے بعد کیس کی سماعت 28 تاریخ تک ملتوی کی جائے گی کیونکہ اس دوران بینچ دستیاب نہیں ہوگا۔ اٹارنی جنرل 28 اپریل سے اپنے دلائل کا آغاز کریں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “یہ کیا مذاق ہے، بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا اس کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟” انہوں نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کہاں ہیں؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اُنہیں دو سے تین دن کا وقت درکار ہے۔

عدالت نے خواجہ حارث کو کل تک اپنے جواب الجواب مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی

Comments are closed.