ماحولیاتی کارکن اور عالمی شہرت یافتہ نوجوان کارکن گریٹا تھنبرگ سمیت گلوبل فریڈم فلوٹیلا (صمود فلوٹیلا) کے درجنوں کارکنان کو اسرائیلی جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔ یونان پہنچنے پر فلسطین کے حامیوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا، جہاں گریٹا نے واضح الفاظ میں کہا کہ “ہم پر جو ظلم ہوا وہ اہم نہیں، اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل ایک پوری قوم کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔” یہ کارکنان انسانی امداد غزہ پہنچانے کی کوشش میں گرفتار ہوئے تھے، اور ان کی رہائی نے فلسطینی جدوجہد کو عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔
رہائی اور یونان میں پرجوش استقبال
گلوبل فریڈم فلوٹیلا کے جہاز ‘مجھدہ’ پر سوار کارکنوں کو اسرائیلی فورسز نے روک لیا تھا، جو انسانی امداد غزہ لے جا رہے تھے۔ گرفتاری کے بعد انہیں اسرائیلی جیلوں میں منتقل کر دیا گیا، جہاں انہیں کئی دنوں تک قید رکھا گیا۔ 7 اکتوبر کو رہائی کے بعد یونان کے ایتھنز ایئرپورٹ پر فلسطینی حامیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور مقامی شہریوں نے ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ تہاڑ، نعرے اور فلسطینی جھنڈیاں لہرا کر مظاہرہ کرنے والوں میں گریٹا تھنبرگ کو خاص طور پر سراہا گیا، جو اپنی ماحولیاتی جدوجہد سے اب فلسطینی حقوق کی علامت بن چکی ہیں۔ سوئٹزرلینڈ، ہسپانوی اور سویڈش کارکن بھی یونان پہنچے، جہاں انہوں نے اپنے تجربات شیئر کیے۔
گریٹا کا بیان: غزہ میں نسل کشی، عالمی اداروں کی ناکامی
یونان پہنچنے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے گریٹا تھنبرگ نے کہا، “میں بالکل واضح طور پر کہنا چاہتی ہوں کہ غزہ میں ایک نسل کشی جاری ہے۔ بین الاقوامی ادارے فلسطینیوں کو دھوکہ دے رہے ہیں اور وہ جنگی جرائم کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ “ہم نے گلوبل صمود فلوٹیلا کے ذریعے وہ ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش کی جو ہماری حکومتیں انجام دینے میں ناکام رہیں۔” گریٹا نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ اس نے ایک بار پھر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انسانی امداد کو غزہ تک پہنچنے سے روکا ہے، جبکہ غزہ میں لوگ بھوک اور بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ ان کا یہ بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا، جہاں ہزاروں لوگوں نے فلسطینی جدوجہد کی حمایت میں پوسٹس شیئر کیں۔
اسرائیلی حراست میں تشدد کے الزامات: کارکنوں کی دل دہلا دینے والی کہانیاں
رہائی کے بعد کارکنوں نے اسرائیلی حراست میں ہونے والے تشدد کی تفصیلات بیان کیں، جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔ سوئٹزرلینڈ سے واپس پہنچنے والے 9 کارکنوں نے الزام لگایا کہ انہیں نیند سے محروم رکھا گیا، پانی اور خوراک نہیں دی گئی، بعض کو مارا پیٹا گیا اور پنجروں میں بند کیا گیا۔ ہسپانوی کارکنوں نے بھی ملک واپسی پر میڈرڈ ایئرپورٹ پر وکیل رافائیل بورریگو کے ذریعے تفصیلات بتائیں، جنہوں نے کہا، “انہوں نے ہمیں مارا، زمین پر گھسیٹا، آنکھوں پر پٹیاں باندھیں، ہاتھ پاؤں باندھے، پنجروں میں رکھا اور گالیاں دیں۔” سویڈش کارکنوں نے بتایا کہ گریٹا تھنبرگ کو زبردستی اسرائیلی پرچم اٹھانے پر مجبور کیا گیا، جبکہ دیگر کو صاف پانی، کھانے سے محروم رکھا گیا، ان کی دوائیں اور ذاتی سامان ضبط کر لیا گیا۔ گریٹا نے اس ظلم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، “ہم پر جو ظلم ہوا اس کے بارے میں بہت تفصیل سے بات کر سکتی ہوں، لیکن یہ اہم بات نہیں ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اسرائیل اس وقت نسل کشی کے ارادے سے ایک پوری قوم کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔”
عالمی ردعمل اور فلسطینی جدوجہد کی اہمیت
یہ واقعہ عالمی سطح پر تنقید کا باعث بنا ہے، جہاں انسانی حقوق کی تنظیمیں جیسے ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیلی اقدامات کی مذمت کی ہے۔ فلسطینی حکام نے کارکنوں کی رہائی کو “فلسطینی مزاحمت کی فتح” قرار دیا، جبکہ اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا کہ جہاز پر غیر قانونی امداد تھی۔ گریٹا تھنبرگ کی جدوجہد، جو ماحولیات سے شروع ہوئی تھی، اب فلسطینی حقوق تک پھیل چکی ہے، جو نوجوان نسل کو انسانی مسائل پر آواز اٹھانے کی ترغیب دے رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فلوٹیلا نہ صرف امداد کی کوشش تھی بلکہ عالمی ضمیر کو جگانے کا ذریعہ بھی، جو غزہ کی انسانی بحران کو اجاگر کرتا ہے۔
اس رہائی نے فلسطینی جدوجہد کو نئی توانائی دی ہے، اور گریٹا جیسے کارکنوں کی آواز عالمی سیاست کو متاثر کر سکتی ہے۔
Comments are closed.