حماس نے مذاکرات کیلئے ٹرمپ اور ثالث ممالک سے ضمانت مانگ لی

مصر کے شہر شرم الشیخ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان بالواسطہ مذاکرات تیسرے روز بھی جاری ہیں۔ فریقین کے درمیان جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے اور غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے معاملات پر بات چیت ہو رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق مذاکرات میں امریکہ، قطر اور ترکی کے نمائندے ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ مصری حکام براہِ راست نگرانی کر رہے ہیں۔

حماس کا مؤقف

حماس کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ خلیل الحیہ نے کہا ہے کہ ان کی تنظیم نے “یرغمالیوں اور قیدیوں کی فہرست اسرائیلی فریق کو فراہم کر دی ہے” اور وہ “معاہدے تک پہنچنے کے لیے درکار مثبت رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔”
انہوں نے واضح کیا کہ حماس جنگ کے خاتمے کے لیے تیار ہے لیکن معاہدہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک امریکہ اور دیگر اسپانسر ممالک اس بات کی ضمانت نہ دیں کہ “جنگ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی” اور اسرائیل دوبارہ کارروائیاں شروع نہیں کرے گا۔

عالمی ثالثوں کا کردار

قطر کے وزیراعظم، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور جیرڈ کشنر سمیت ترک انٹیلی جنس چیف ابراہیم قالن بھی مذاکرات میں شریک ہیں۔
ترک صدر طیب اردوان نے ایک بیان میں کہا کہ ترکی حماس سے مسلسل رابطے میں ہے اور “صدر ٹرمپ کی امن کوششوں کی حمایت کرتا ہے” تاہم انہوں نے زور دیا کہ “غزہ ہمیشہ فلسطین کا حصہ رہے گا”۔

امریکہ کا مؤقف

امریکی نمائندوں نے عندیہ دیا ہے کہ اگر فریقین ابتدائی فائر بندی پر متفق ہو جائیں تو صدر ٹرمپ کا 20 نکاتی امن منصوبہ فوری طور پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔
منصوبے میں قیدیوں کی رہائی، مرحلہ وار جنگ بندی، حماس کی غیر مسلح کاری، اور غزہ میں تعمیرِ نو کے لیے ایک بین الاقوامی فنڈ کا قیام شامل ہے۔

امن کی امید اور چیلنجز

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ مذاکرات حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ سنجیدہ کوشش ہیں، تاہم دونوں فریقوں کے درمیان “مستقل جنگ بندی کی ضمانت” کے معاملے پر اختلاف برقرار ہے۔
غزہ میں جاری انسانی بحران، تباہ حال بنیادی ڈھانچے اور لاکھوں بے گھر افراد کی بحالی کے لیے عالمی برادری نے مذاکرات کے فوری اور مثبت نتائج کی امید ظاہر کی ہے۔

Comments are closed.