عمران خان 9 مئی کی ’مجرمانہ سازش‘ میں ملوث، ضمانت قبل از گرفتاری نہیں دی جا سکتی

لاہور میں انسدادِ دہشتگردی کی عدالت نے 9 مئی کے ایک مقدمے میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مبینہ ’مجرمانہ سازش‘ میں ملوث شخص اس رعایت کے حقدار نہیں ہیں۔

انسدادِ دہشتگردی کی عدالت کے جج خالد ارشد نے اپنے حکمنامے میں لکھا ہے کہ ’ضمانت قبل از گرفتاری کی غیرمعمولی رعایت بے گناہ شخص کو دی جاتی ہے، نہ کہ ایسے درخواست گزار کو جو کہ پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں اور احتجاجی مظاہرین کے ساتھ مل کر ریاست کے خلاف جنگ کرنے اور حکومت کا تختہ پلٹنے کی مبینہ مجرمانہ سازش میں ملوث ہو۔‘

خیال رہے گذشتہ برس سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پُرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے، جس کے دوران مظاہرین نے سرکاری عمارتوں کو نقصان بھی پہنچایا تھا۔

عمران خان متعدد مرتبہ خود پر لگنے والے الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔

حکمنامے میں لکھا ہے کہ دو گواہان نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ درخواست گزار عمران خان اور پی ٹی آئی کے 15 سینیئر رہنماؤں نے 7 مئی 2023 کے دن 5:15 سے 6:00 بجے کے درمیان لاہور کے زمان پارک میں ایک میٹنگ کی اور کہا کہ انھیں (عمران خان کو) ڈر ہے کہ انھیں 9 مئی کو اسلام آباد میں گرفتار کر لیا جائے گا۔

عدالتی حکمنامے میں لکھا گیا ہے کہ گواہان کے مطابق عمران خان نے ہدایات جاری کیں کہ ان کی گرفتاری کی صورت میں ڈاکٹر یاسمین راشد کی قیادت میں پی ٹی آئی کے کارکنان کو جمع کیا جائے اور عسکری تنصیبات، سرکاری املاک اور پولیس افسران پر حملہ کیا جائے تاکہ حکومت اور عسکری اداروں پر ان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔

حکمنامے میں لکھا گیا ہے کہ درخواست گزار عمران خان کے ساتھی ملزمان نے جواب دیا کہ وہ ان کی ’ریڈ لائن‘ ہیں اور وہ پی ٹی آئی کے کارکنان کو اُکسا کر حکومت کو مفلوج کر دیں گے۔

’استغاثہ کا درخواست گزار کے خلاف کیس یہ ہے کہ درخواست گزار نے مبینہ مجرمانہ سازش بُنی جس سے پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے اتفاق کیا اور جدید ڈیوائسز خصوصاً آن لائن طریقے سے مظاہرین تک اسے پہنچایا جنھوں نے اُکسانے کے نتیجے میں (سرکاری املاک پر) حملے کیے، زبردستی جناح ہاؤس میں گھس گئے اور اسے نذرِ آتش کر دیا۔‘

عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کو مسترد کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے انسدادِ دہشتگردی کی عدالت کے جج نے اپنے حکمنامے میں لکھا ہے کہ درخواست گزار نے اپنے خلاف درج مقدمے پر جس ’سیاسی انتقام‘ کا نشانہ بننے کا دعویٰ کیا ہے وہ عقل و دماغ سے بالاتر ہے۔

جج کی جانب سے انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’پُر امن طریقے سے احتجاج کرنے والا شخص اس وقت دہشتگرد بن جاتا ہے جب وہ مجرمانہ سازش بُنتا ہے اور اسے دیگر مسلح لوگوں تک پہنچاتا ہے جو حکومت کو مفلوج کرنے کے لیے جناح ہاؤس جیسی ریاستی عمارتوں پر حملے کرتے ہیں۔ ایسا شخص وہ تمام حقوق کھو دیتا ہے جو کہ قانون کا احترام کرنے والے شہری کو حاصل حاصل ہوتے ہیں۔‘

مزید خبروں کیلئے وزٹ کریں

Comments are closed.