بھارتی جارحیت عالمی قوانین کی خلاف ورزی، عالمی برادری نوٹس لے: پاکستان کا دوٹوک مؤقف

اسلام آباد: دفتر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارت کی حالیہ جارحیت اور پروپیگنڈے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت نہ صرف پاکستان کے خلاف مسلسل دہشت گردی کی سرپرستی کر رہا ہے بلکہ عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ بھارت نے 7 مئی کی رات بغیر کسی جواز کے جارحیت کی، جو اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کا پاکستان پر حملہ محض سوشل میڈیا کی چند پوسٹس پر مبنی الزامات کی بنیاد پر کیا گیا، جو انتہائی غیر سنجیدہ اور خطرناک روش ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کیا سوشل میڈیا پر جھوٹے دعووں کی بنیاد پر ممالک کو ایک دوسرے پر حملے کی اجازت دے گی؟

ترجمان نے بتایا کہ بھارت نے پہلگام واقعے کو جواز بنا کر پاکستان کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈا کیا جبکہ پاکستان نے اس واقعے کی شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

بھارتی سیکرٹری خارجہ کے غیر سفارتی بیان کو بھی مسترد کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان ہر ممکن تحمل سے کام لے رہا ہے لیکن یہ ضبط کمزوری نہیں، اگر حالات بگڑے تو پاکستان اپنا دفاع کرنا خوب جانتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی اقدامات دو جوہری طاقتوں کو آمنے سامنے لا رہے ہیں، یہ عالمی برادری کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ دنیا کو چاہیے کہ بھارت کو اس غیر ذمہ دارانہ طرزعمل پر جواب دہ ٹھہرائے۔

سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے ترجمان نے واضح کیا کہ بھارت کی جانب سے اس معاہدے کی معطلی بے معنی ہے، کیونکہ اس معاہدے پر کروڑوں انسانوں کا انحصار ہے۔ بھارت کا یہ قدم نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی معاہدوں کے تقدس کو بھی چیلنج کرنا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے مزید کہا کہ بھارت خود دہشت گردی کا سرپرست رہا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ سمجھوتہ ایکسپریس میں 40 پاکستانیوں کے قتل کے ذمہ دار آج تک انصاف کے کٹہرے میں نہیں لائے گئے۔ بھارت کے قاتل اسکواڈز دوسرے ممالک میں سرگرم ہیں، جبکہ ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کی تحقیقات بھارت کی اپنی ہچکچاہٹ کی نذر ہو گئیں۔

پاکستان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت کی ان کارروائیوں کا نوٹس لے اور جنوبی ایشیا کو جنگی جنون سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

Comments are closed.