ایران کے بندر عباس شہر میں واقع شہید رجائی بندرگاہ پر ہونے والے زبردست دھماکے میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 516 تک پہنچ گئی ہے جبکہ چار افراد کے جاں بحق ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر داخلہ اسکندر مومنی کو جائے وقوعہ کا دورہ کرنے اور مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
ایرانی حکام کے مطابق بندرگاہ کی ایک عمارت میں موجود متعدد کنٹینرز میں ممکنہ طور پر کیمیکل ذخیرہ کیا گیا تھا، جو اچانک ایک بڑے دھماکے سے پھٹ گئے۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز اور جھٹکے 50 کلومیٹر دور تک محسوس کیے گئے۔
یہ واقعہ تہران کے جنوب میں تقریباً 1000 کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ ہرمزگان کی اہم ترین کمرشل بندرگاہ پر پیش آیا۔ شہید رجائی بندرگاہ ایران کی سب سے بڑی تجارتی بندرگاہ ہے جو آبنائے ہرمز کے قریب واقع ہے، جو عالمی سطح پر تیل کی تجارت کے لیے ایک اہم گزرگاہ سمجھی جاتی ہے۔
ایران کی قومی آئل پروڈکشن کمپنی نے تصدیق کی ہے کہ دھماکے کا ملک کی آئل ریفائنریز، فیول ٹینکس یا پائپ لائنز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نیشنل آئل ریفائننگ اینڈ ڈسٹری بیوشن کمپنی نے بھی وضاحت کی ہے کہ تیل کی سہولیات محفوظ ہیں اور دھماکہ کسی بھی آئل تنصیبات سے وابستہ نہیں تھا۔
حکومتی ترجمان فاطمہ مہاجرانی نے فارس نیوز ایجنسی کو بتایا کہ دھماکے کی اصل وجہ کا تعین کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔ ابتدائی تحقیقات سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ بندرگاہ کے ایک حصے میں موجود کنٹینرز میں موجود کیمیائی مواد اچانک بھڑک اٹھا، تاہم آگ پر قابو پانے تک حتمی رپورٹ جاری نہیں کی جائے گی۔
ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ “آتش گیر مواد کو سنبھالنے میں لاپرواہی” بھی اس حادثے کی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل 2020ء میں بھی شہید رجائی بندرگاہ کو سائبر حملے کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس سے بندرگاہ کی سرگرمیوں اور آمد و رفت میں شدید خلل پیدا ہوا تھا۔ اس وقت مغربی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ سائبر حملہ اسرائیل کی جانب سے ایرانی سائبر حملوں کے ردعمل میں کیا گیا تھا۔
ایرانی حکام نے جائے وقوعہ پر ریسکیو اور تحقیقاتی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور شہریوں کو متاثرہ علاقے سے دور رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
Comments are closed.