حزب اللہ کو میزائل دینا ناممکن نہیں، ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر کا اعلان

لبنان میں اس وقت حکومت امریکی دباؤ کے تحت ایسی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کے تحت اسلحہ صرف ریاستی اداروں کے پاس ہو۔ اس پالیسی کا سب سے بڑا ہدف حزب اللہ کو اسلحے سے محروم کرنا ہے۔ تاہم، ایسے وقت میں ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے ایک بڑا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ “حزب اللہ کو میزائل دینا ناممکن نہیں”۔

قالیباف کا سخت مؤقف

بدھ کی شب ایک ٹی وی انٹرویو میں قالیباف نے کہا: “اگر میں حزب اللہ کا کمانڈر ہوتا تو اسرائیل پر 100 سے 200 کلومیٹر اندر تک حملہ کرتا۔” انہوں نے کہا کہ جب وہ کہتے ہیں حزب اللہ پہلے سے زیادہ فعال ہے تو اس سے مراد صرف عقائد نہیں بلکہ فوجی صلاحیتیں، تنظیمی اتحاد اور مادی و معنوی پہلو بھی ہیں۔ ان کے مطابق چیلنجز ابھی ختم نہیں ہوئے، مگر حزب اللہ مضبوط ہے۔

اسرائیلی منصوبے اور “بیجر آپریشن”

قالیباف نے انکشاف کیا کہ اسرائیل ایرانی میزائل سسٹمز کو نشانہ بنانے کے لیے بھی “بیجر آپریشن” جیسے منصوبے بنا رہا تھا۔ ان کے مطابق دشمن نے ایرانی فوجی الیکٹرانک آلات اور پرزوں تک رسائی حاصل کر لی تھی اور بعض میزائل سسٹمز کو خراب کر دیا تھا، تاہم ایرانی حکام نے بروقت اس سازش کو ناکام بنا دیا۔

انہوں نے کہا کہ “الوعد الصادق 1” آپریشن (13 اپریل 2024 کو ایران کا اسرائیل پر میزائل حملہ، جو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کا جواب تھا) کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ بعض میزائل لانچ کے بعد خرابی کا شکار ہوئے۔ اسرائیل اپنی خلائی صلاحیتوں کے ذریعے یہ کمزوریاں لانچ سے پہلے ہی جان لیتا تھا۔

حزب اللہ پر کاری ضرب

یاد رہے کہ گذشتہ سال اسرائیل نے “بیجر آپریشن” کے ذریعے حزب اللہ کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔ اس کارروائی میں ہزاروں وائرلیس اور بیجر ڈیوائسز میں بارودی مواد نصب کر کے دھماکہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک اور تین ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔

اس واقعے میں ایران کے لبنان میں سفیر مجتبیٰ امانی بھی شدید زخمی ہوئے، جن کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی اور ہاتھ کی انگلیاں کٹ گئیں۔ اسرائیلی دعووں کے مطابق یہ کارروائی کئی برسوں کی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھی، جس کے بعد حزب اللہ کی صفوں میں شدید کمزوری پیدا ہوئی۔ مزید یہ کہ تنظیم کے کئی اعلیٰ کمانڈرز کو بھی بعد میں ہدف بنا کر قتل کر دیا گیا۔

خطے میں کشیدگی

ماہرین کا کہنا ہے کہ قالیباف کے اس بیان سے نہ صرف لبنان بلکہ پورے خطے میں کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔ امریکی دباؤ، لبنانی حکومت کی پالیسی اور ایران کی کھلی حمایت نے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو مزید نازک بنا دیا ہے۔

Comments are closed.