قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں ہوا جس میں پاکستان تحریک انصاف نے اپنے ارکان کے ڈی نوٹیفائی ہونے پر بائیکاٹ کر دیا۔ اجلاس کے آغاز میں پی ٹی آئی کے رکن اقبال آفریدی نے کورم کی نشاندہی کی تاہم گنتی کے بعد کورم مکمل نکلا۔ اس موقع پر اسپیکر نے کہا کہ جب ہم سیلاب اور دہشت گردی جیسے قومی ایشوز پر بات کر رہے ہیں تو ایسے وقت میں کورم کی نشاندہی بدقسمتی ہے۔
پی ٹی آئی کا احتجاج اور بائیکاٹ
پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر گوہر نے اجلاس میں کہا کہ بونیر میں ہمارے 236 افراد جاں بحق ہوئے مگر این ڈی ایم اے نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے حکومت پر مسلسل پی ٹی آئی کے اراکین کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ حکومت کے رویے کے خلاف ہم اسمبلی سے بائیکاٹ کر رہے ہیں۔
اسپیکر کا جواب اور این ڈی ایم اے کا ذکر
اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ پی ٹی آئی بعد میں باہر جا کر الزام لگاتی ہے کہ انہیں بولنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ این ڈی ایم اے بھرپور کام کر رہی ہے اور بونیر میں ریلیف ورک کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ اسپیکر نے کہا کہ اس وقت پاکستان سیلاب کی لپیٹ میں ہے، ہمیں متحد ہو کر قومی مسائل پر بات کرنی چاہیے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی تنقید
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تحریک انصاف سیاست برائے سیاست کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا آئین اور قانون ایک ہی اسمبلی کو مانتا ہے اور تحریک انصاف کے رہنما کو عدالت کے فیصلوں کے بعد ہی ریلیف ملے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے ارکان سیلاب زدگان کے مسائل پر بات کریں کیونکہ وہ انہی کے ووٹوں سے ایوان میں آئے ہیں۔
بلوچستان کے احتجاجی افراد پر حکومتی موقف
وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری نے ایوان کو بتایا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افراد اسلام آباد پریس کلب کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ان سے بات کرنا چاہتی ہے مگر وہ مذاکرات پر تیار نہیں۔ طلال چودھری نے کہا کہ احتجاج کرنے والوں کے کچھ مطالبات ایسے ہیں جو پورے نہیں کیے جا سکتے اور کچھ معاملات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد کمیشن اس معاملے پر کام کر رہا ہے اور حکومت بھی اس پر بات چیت کرنے کو تیار ہے۔
Comments are closed.