سپریم کورٹ کا بڑا سوال: مخصوص نشستوں کے خالی رہنے پر آئینی پابندی ہے یا نہیں؟

اسلام آباد – سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواستوں پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی فل کورٹ بنچ نے سماعت کی۔ کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہِ راست نشر کی گئی۔

پی ٹی آئی رہنما کنول شوزب کی نمائندگی کرتے ہوئے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے 41 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی الیکشن کمشنر پنجاب کے حکم پر مسترد کیے گئے، جس کی وجہ سے ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی۔

ججز کے اہم سوالات اور تبصرے

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ “کاغذات نامزدگی پر فیصلہ ریٹرننگ افسر (RO) کا ہوتا ہے، نہ کہ الیکشن کمیشن کا۔” انہوں نے سلمان اکرم راجہ کے دلائل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “آپ دیر سے آئے، مگر درست بھی نہیں آئے۔”

جسٹس مندوخیل نے دورانِ سماعت گزشتہ دن کے حوالے سے سلمان اکرم راجہ کی جانب سے دیے گئے ایک بیان پر حیرت کا اظہار بھی کیا جس میں انہوں نے بچوں کی گرفتاری کا ذکر کیا تھا۔ راجہ نے اس بیان پر معذرت پیش کی۔

جسٹس امین الدین نے پوچھا کہ کیا مخصوص نشستیں خالی نہ رکھنا آئینی تقاضا ہے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ عدالت پہلے ہی قرار دے چکی ہے کہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رکھی جا سکتیں، ہم اسی مؤقف پر ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس نعیم اختر افغان نے بھی بنیادی حقوق اور عدالت کے اختیار سے متعلق سوالات اٹھائے، خاص طور پر اس بات پر زور دیا کہ کیا عدالت کسی سیاسی جماعت کے چھوڑے گئے خلا کو خود پُر کر سکتی ہے؟

سلمان اکرم راجہ کا مؤقف

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت کے پاس مفاد عامہ کے مقدمے میں آرٹیکل 184(3) اور 187 کے تحت مکمل اختیار ہے۔ انہوں نے پیر صابر شاہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے جوڈیشل ریویو کے حق پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ عوام کا جمہوری حق متاثر ہوا ہے اور یہ کیس صرف فریقین کے درمیان نہیں بلکہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے دیوار نہیں کھڑی کی، بلکہ ہمارے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔

سماعت کل تک ملتوی

بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل صبح 9:30 بجے تک ملتوی کر دی، جس میں سلمان اکرم راجہ اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

Comments are closed.