توشہ خانہ سے متعلق نئے کیس میں بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی گرفتاری خلافِ قانون قرار دینے کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔
دوران سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ نیب کے جواب کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے کہا جو مرضی ہو جائے میں شامل تفتیش نہیں ہوں گا۔ یہ ناقابلِ قبول ہے کہ ملزم کہے میں تفتیش میں تعاون نہیں کروں گا۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ جسمانی ریمانڈ کا معاملہ تو بعد میں آئے گا پہلے نیب کا کنڈکٹ دیکھ لیں، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ کی اسی نوعیت کی ایک درخواست پہلے ہی زیرسماعت ہے۔
جس پر وکیل نے بتایا کہ اس درخواست پر سماعت کی تاریخ اکتوبر میں مقرر کی گئی ہے، وہ ابھی بہت دُور ہے۔
عدالت نے کہا کہ ہم فائل چیف جسٹس کو بھیج دیتے ہیں پھر وہ فیصلہ کریں گے کہ کیسز کو یکجا کر کے کس بینچ میں لگائیں۔
دوران سماعت وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی عدت کیس میں بریت پر توشہ خانہ کیس میں ضمانت کی درخواست دائر کی گئی۔ ٹرائل جج نے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر نوٹس جاری کیا لیکن عبوری ضمانت نہیں دی۔ ٹرائل کورٹ کے جج نے غیرقانونی طور پر عبوری ضمانت نہیں دی۔ ٹرائل کورٹ کے نوٹس کے باوجود نیب نے نئے توشہ خانہ کیس میں گرفتاری ڈال دی۔ نیب نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جواب جمع کروا دیا لیکن ٹرائل کورٹ میں نہیں جمع کرایا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ احتساب عدالت کا جج کون تھا؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ محمد علی وڑائچ احتساب عدالت کے جج تھے جب کہ ہائی کورٹ میں چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ہماری درخواستوں پر سماعت کی۔ پہلی سماعت پر نوٹس جاری کرنے کے بعد بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی درخواست پر سماعت نہیں ہوئی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ کیس کو چیف جسٹس کے سامنے پہلے سے اسی نوعیت کی درخواستوں کے ساتھ یکجا کریں۔ چیف جسٹس درخواستوں کو یکجا کر کے جلد دستیاب بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کریں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے کیس کی فائل چیف جسٹس عامر فاروق کو بھیجوا دی۔
Comments are closed.