ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے ایک اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران کی علماء کی اسٹیبلشمنٹ کے نام ایک خط جلد ہی تہران پہنچایا جائے گا۔ ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے اپنے تبصرے میں عراقچی نے کہا کہ یہ خط ایک “عرب ملک” کے ذریعے ایران کو بھیجا جا رہا ہے، تاہم اس ملک کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔
صدر ٹرمپ نے اس خط میں ایران کو ایک نئے جوہری معاہدے پر مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ امریکی صدر کی جانب سے خط بھیجنے کے انکشاف کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای پہلے ہی یہ واضح کر چکے ہیں کہ “تہران کو کسی بھی صورت مذاکرات کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔”
دوسری طرف اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے جوہری پروگرام پر بدھ کے روز ایک بند کمرہ اجلاس بھی ہوا، جس پر ردِعمل دیتے ہوئے عباس عراقچی نے کہا کہ “یہ اجلاس ایک نیا اور عجیب و غریب عمل تھا، جو اس کی درخواست کرنے والے ممالک کی نیت اور خیر سگالی پر سوالیہ نشان ہے۔”
سلامتی کونسل کے اس اجلاس کی درخواست کونسل کے 15 میں سے 6 ارکان — فرانس، یونان، پاناما، جنوبی کوریا، برطانیہ اور امریکہ — نے دی تھی۔ اجلاس میں ایران کے ہتھیاروں کے درجے کے قریب یورینیم کے ذخیرے میں اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔
واضح رہے کہ ایران کے جوہری پروگرام اور امریکہ کے ساتھ جاری کشیدگی کے تناظر میں یہ تازہ پیش رفت غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ایران اور امریکہ کے درمیان خط و کتابت کا یہ سلسلہ آگے بڑھا تو خطے میں کشیدگی کم کرنے کا ایک نیا راستہ نکل سکتا ہے، تاہم ایران کی قیادت کے بیانات اس امکان کو فی الحال کمزور کرتے ہیں۔
Comments are closed.