واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے اپنی سخت پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایران نے جوہری سرگرمیاں ترک نہ کیں تو امریکہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کر سکتا ہے، اور اس میں اسرائیل کو قائدانہ کردار دیا جائے گا۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ “ہماری قیادت کو کوئی اور نہیں کرے گا۔ جو ہم چاہیں گے، وہی ہوگا۔” یہ بیان اس وقت آیا جب امریکہ اور ایران کے درمیان اومان میں ممکنہ مذاکرات ہو رہے ہیں، لیکن ایران نے ان مذاکرات کو براہ راست مذاکرات کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
اس پالیسی کے پیچھے ٹرمپ کا واضح پیغام ہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، چاہے وہ فوجی کارروائی ہو یا اس میں اسرائیل کا کردار۔ کیا یہ بیان صرف ایک دھمکی ہے یا اس کے پیچھے امریکی حکمت عملی چھپی ہوئی ہے؟ عالمی سطح پر اس پر بحث تیز ہو گئی ہے، اور یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا امریکہ اس کے ساتھ ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے مزید موقع دے گا؟
دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے یہ عندیہ دیا ہے کہ اگر ایران نے براہ راست مذاکرات سے انکار کیا تو وہ اومان نہیں جائیں گے۔ ان مذاکرات میں ایران کی نمائندگی وزیر خارجہ عباس عراقچی کریں گے۔
یہ صورتحال امریکہ اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو مزید ہوا دے رہی ہے، اور اس کا اثر عالمی سیاست پر پڑنے کا امکان ہے۔
Comments are closed.