امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ یوکرین میں جاری جنگ ختم کرنے کے خواہاں ہیں، لیکن روسی صدر ولادی میر پوتین اور یوکرینی صدر ولودی میر زیلنسکی کے درمیان “ناقابلِ تصور نفرت” موجود ہے جو امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ نیوجرسی میں طیارے پر سوار ہونے سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ دونوں رہنما بات چیت پر آمادہ نہیں ہیں، جس کی وجہ سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے یورپ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یورپی ممالک اب بھی روسی تیل خرید رہے ہیں، خواہ بالواسطہ طریقوں سے ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے مطابق یورپی ممالک کی طرف سے عائد کی جانے والی پابندیاں اتنی “سخت” نہیں ہیں جتنی ہونی چاہییں۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ مزید سخت پابندیاں لگانے کو تیار ہیں، لیکن یورپ کو بھی اپنے اقدامات میں شدت لانی ہوگی تاکہ یہ اقدامات امریکی پالیسی کے مطابق ہوں۔
نیٹو اور امریکی امداد پر ٹرمپ کے تحفظات
امریکی صدر نے نیٹو کے کردار پر بھی سوال اٹھائے اور کہا کہ “ہم صرف ہتھیار بیچ رہے ہیں اور یہ واقعی حیران کن ہے۔ بائیڈن نے 350 ارب ڈالر خرچ کر ڈالے، جبکہ میں نے کچھ نہیں دیا، بلکہ ہم منافع کما رہے تھے۔ لیکن میں یہ قتل و غارت روکنا چاہتا ہوں۔” ٹرمپ نے مزید کہا کہ بعض نیٹو ممالک بالواسطہ طور پر روسی تیل خرید رہے ہیں، جو اصل معاہدے کے خلاف ہے۔
زیلنسکی کا ردعمل
دوسری جانب یوکرینی صدر ولودی میر زیلنسکی نے امریکی صدر ٹرمپ اور روسی صدر پوتین کی حالیہ ملاقات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ کیف میں سی این این کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے زیلنسکی نے کہا کہ پوتین نے اس ملاقات سے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں، خاص طور پر امریکی سرزمین پر ہونے والی اس ملاقات میں۔
زیلنسکی کے مطابق، پوتین نے کسی جنگ بندی کا وعدہ نہیں کیا بلکہ ممکنہ طور پر ٹرمپ سے کچھ اور وعدے لیے ہوں، تاہم ان پر عمل نہیں ہوا۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ صدر ٹرمپ نے روس پر پابندیوں کو موخر کر دیا اور کسی سخت دباؤ سے بھی گریز کیا۔ زیلنسکی نے کہا کہ “اسی لیے میں نے کہا کہ غالباً پوتین زیادہ کامیاب رہے۔”
نتیجہ اور مستقبل کی سمت
ٹرمپ اور زیلنسکی کے بیانات سے واضح ہے کہ یوکرین کی جنگ ختم کرنے کے لیے عالمی سطح پر اختلافات بدستور موجود ہیں۔ ٹرمپ پابندیوں میں شدت اور امن کی بات کر رہے ہیں، جبکہ زیلنسکی کے نزدیک پوتین اب بھی اپنے مقاصد حاصل کر رہے ہیں۔ ایسے میں جنگ بندی کے امکانات تاحال غیر یقینی دکھائی دیتے ہیں۔
Comments are closed.