اسلام آباد: وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ حکومت قومی سطح پر ادارہ جاتی اصلاحات میں سنجیدہ ہے، کہتے ہیں ہمارے دروازے مشرق اور مغرب کیلئے بھی کھلے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارا مشرقی پڑوسی پاکستان کو کمزور کرتا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے عوام پر ظلم جاری رکھے ہوئے ہے۔
پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کی 23 ویں سالانہ کانفرنس کے تیسرے دن کانفرنس میں پاکستان کو درپیش معاشی آوٹ ریچ انیشی ایٹو اور غیرروایتی سلامتی کے خطرات کے موضوع پرخطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان معاشی تحفظ، رابطے، علاقائی امن اور ترقیاتی شراکت داری کو ملکی معیشت کا ایک مضبوط اقدام قرار دیتے ہیں۔ اسی لئے ہم افغانستان اور وسطی ایشیائی ملکوں کے ساتھ روابط اور امن چاہتے ہیں۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے معید یوسف نے کہا کہ ہمارے دروازے مشرق اور مغرب کیلئے بھی کھلے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارا مشرقی پڑوسی پاکستان کو کمزور کرتا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے عوام پر ظلم جاری رکھے ہوئے ہے۔ بحیثیت ملک یہاں سیکڑوں چیزیں ٹھیک جارہی ہیں لیکن پاکستان کے حوالے سے عالمی برادری کی سوچ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج حکومت ترقیاتی امداد نہیں لے رہی ہم ترقیاتی شراکت کی بات کر رہے ہیں۔ہم اب کسی کے مفاد کے آلہ کار بن کر کسی ملک کو فوجی اڈے فراہم کرنے کے معاشی منڈیاں فراہم کرنے کے حق میں ہیں۔
ڈاکٹر معید نے کہا کہ پاکستان کا مستقبل معاشی ڈپلومیسی اور معاشی استحکام میں ہے ۔ پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہمیں امریکہ کے ساتھ بات چیت کا انداز تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کے ساتھ افغانستان اور امداد کی بجائے ہمیں ترقیاتی شراکت داری اور معاشی استحکام پر بات کرنا ہوگی۔
مسابقتی کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئرمین ڈاکٹر جوزف ولسن نے طبی سہولیات کی فراہمی آئین کے مطابق یقینی بنانے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں اورخاص کر صحت کی دیکھ بھال کے شعبے کے متاثرہونے کی ایک بڑی وجہ پیٹنٹ ادویات کی قیمتوں کا غیر منصفانہ تعین ہے۔ انہوں نے حکومت ، سول سوسائٹی اور اکیڈمیا کے مابین اجتماعی کوششوں اور شراکت داری کی تجویز پیش کی۔
کٹس انٹرنیشنل کے ڈاکٹر پردیپ نے کہا کہ عالمی سول سوسائیٹی کو دوہا اعلامیہ اور عالمی معاہدہ دانشوری کی روشنی میں صحت عامہ کیلئے کوویڈ ویکسین کیلئے رہنمائی کرنی چاہئے۔ اقوام متحدہ کے تجارتی شعبہ کی ٹریسا موریرہ نے دنیا بھر میں صحت کی دیکھ بھال کی منڈیوں کے موثر انداز میں کام کرنے کے لئے مسابقت اور صارفین کی پالیسیوں پرگفتگو کی۔انہوں نے کہا کہ مقابلے کی دوڑ سے صحت کی سستی سہولتوں کی فراہمی میں مدد ملے گی۔ اس موضوع پر آسٹریلوی ماہر ایلن اشعر جنوبی افریقہ کے ماہر نے بھی صحت عامہ کے تحفظ پر اظہار خیال کیا۔
سگریٹ سازوں کی طرف سے غلط آگہی کے موضوع پر صحت کی پارلیمانی سیکرٹری نوشین حامد نے کہا کہ وباءکے دوران زندگیوں کا تحفظ صرف طبی ماہرین کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے۔انسداد تمباکو اتحاد کے خرم ہاشمی نے کہا کہ کورونا وباءاور سگریٹ نوشی کے براہ راست پھیپڑوں پر اثرات کے بارے میں کوئی تحقیق موجود نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سگریٹ ساز اداروں پر حکومت کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔ایس ڈی پی آئی کے وسیم افتخار جنجوعہ نے مطالبہ کیا کہ انسداد تمباکو نوشی کے حوالے سے حکومت سگریٹ سازوں کو شامل کئے بنا مثبت نتائج نہیں دے سکتی۔این آر ایس پی کے ندیم اقبال نے کہا کہپاکستان ٹوبیکو بورڈ کی طرف سے تمباکو پر تین روپے کی وصولی اس شعبے کی حوصلہ افزائی اور ترقی کر رہی ہے۔
اس موقع پر ڈاکٹر عشرت نے کہا کہ علاقائی سطح پر آبی وسائل کے موثر استعمال کے سلسلے میں تعاون وقت کی ضرورت ہے۔ اس سے ایک طرف خطے میں خوراک ، پانی اور توانائی کے خطرے کو کم کیا جاسکے گا اور دوسری طرف معاش کے مواقع پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت قومی سطح پر ادارہ جاتی اصلاحات کے ایجنڈے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اس میں تجارتی عدم توازن ، محصولات کو متحرک کرنے ، مہارت اور ٹیکنالوجی کی ترقی ، زراعت کی کارکردگی اور نجی شعبے میں اصلاحات شامل ہیں۔ ڈاکٹر عشرت نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اصلاحات کے لئے ویژن اور صبر کی ضرورت ہے اور اگر یہ و ژن جاری رہا تو وہ پر امید ہیں کہ پاکستان ان مسائل کو حل کرلے گا۔ انہوں نے کہا کہ کوویڈ نے ہمیں یہ احساس دلایا ہے کہ ہم ڈیجیٹل تعلیم ، آن لائن صحت کے نظام ، ای کامرس اور ای بینکاری کے شعبے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی وقار مسعود خان نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ملک کسی بحران سے دوچار ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وبا کے دوران احساس پروگرام میں مخیر تنظیموں اورنجی خیراتی اداروں کی مدد سے حکومت 14 ملین گھرانوں تک رسائی حاصل کرسکی انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نجی شعبے کے اداروں کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے تیار ہے۔کلاتھ مرچنٹ ایسوسی ایشن، کراچی کے سابق چیئرمین احمد چنائے نے کہا کہ 60 فیصد وائٹ کالر اور درمیانی طبقے کےلوگوں کویوٹیلٹی بلوں اور ادویات میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔
الفزو ٹیکنالوجیز، اسلام آباد کے معظم آرسیان بھٹی نے تجویز پیش کی کہ کاروباری طبقے کو سماجی خدمات کے شعبے میں فعال کردار ادا کرنا چاہئے۔ڈائریکٹر ریسرچ، مہیش ممتاز، سینٹر برائے ایشین پھیلانتھروپی اینڈ سوسائٹی، ہانگ کانگ نے کہا کہ دنیا پریشانی کا شکار ہے ، لیکن ویکسین کی خوشخبری ابھی بھی دور ہے۔ انہوں نے کہا کہ وبائی بیماری کے بوجھ کو بانٹنے کے لئے ماسک اور گرانٹ جیسے وسائل کی تخلیق کے معاملے میں سماجی شعبہ چوتھے نمبر پر ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی حکومت محسوس کرتی ہے کہ معاشرتی شعبے میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوسی برائے سمندر پار پاکستانی ذوالفقار بخاری نے کہا کہ تاریخی عمارتوں کی سیاحت کمرشل بنیادوں ہر نجی شعبے کے سپرد کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔انہوں نے مذید کہا کہ لاہور اور ٹیکسلہ کے عجائب گھروں کی برینڈنگ کی جا رہی ہے ۔ گوئٹے انسٹی ٹیوٹ لاہور کے قاسم جعفری نے کہا کہ ہمیں تہذیب کے حوالے سے اندرونی سیاحت پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ کانفرنس سے ہرجیت سنگھ،یو این اسکیپ کے مائیکل ولیمسن، جی ای آئی ڈی سی او کے زہنگ بئہوا،ڈاکٹر مائیکل جیکب،ریسرچ فیلواحسن جاوید،مہوش ممتاز،قاسم جعفری اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔
Comments are closed.