افغانستان میں قیام امن کیلئے امریکا – طالبان معاہدہ کن شرائط پر طے پایا۔۔۔؟

اسلام آباد: قطر میں امریکا اور طالبان کے مابین افغان امن معاہدے پر دستخط کے بعد اسے تاریخی معاہدہ قرار دیا گیا جو افغانستان میں تقریباً دو دہائیوں پر محیط جنگ کے خاتمے کا باعث بنے گا۔

دوحا کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ تقریب کے دوران دستخط شدہ چار صفحات پرمشتمل افغان امن معاہدہ 4 مرکزی حصوں پر مشتمل ہے۔ جس کے مطابق طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا۔

اس کے ساتھ ساتھ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ امریکا افغانستان سے امریکی اور اس کی اتحادی افواج  کا بتدریج انخلا یقینی بنایا جائےگا۔ جب کہ طالبان 10مارچ 2020 سے بین الافغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔جس کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ معاہدے میں متعدد بار اسلامی امارات افغانستان کے الفاظ درج ہیں تاہم ہر مرتبہ اس کے ساتھ ‘‘اسلامی امارات افغانستان جسے امریکا ریاست تسلیم نہیں کرتا اور یہ طالبان جانے جاتے ہیں’’ کی تحریر لکھ کر وضاحت کی گئی ہے۔

اس ضمن میں واضح کیا گیا کہ معاہدے کے پہلے دو حصوں کی تکمیل بنیادی طور پر اگلے دو حصوں کی کامیابی سے مشروط ہے۔انٹرا افغان مذاکرات کے پہلے روز یعنی 10 مارچ 2020 کو طالبان کے 5 ہزار اور طالبان کی قید میں موجود ایک ہزارقیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائےگی۔

 انٹرا افغان مذاکرات کے ساتھ ہی امریکا، اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل سے سفارتی سطح پر رابطہ قائم کرکے 29 مئی 2020 تک اس امر کو یقینی بنائے گا کہ افغانستان کے خلاف عائد تمام پابندیاں ختم کردی جائے۔انٹرا افغان مذاکرات کے آغازکے ساتھ ہی امریکا، افغانستان پر عائد تمام پابندیوں سے متعلق نظر ثانی شروع کردے گا اور 27 اگست 2020 تک پابندی ختم کر دےگا۔

امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے اگلے 14 ماہ میں تمام غیرملکیوں بشمول عسکری، نیم عسکری، ٹھیکدار، شہری، نجی سیکیورٹی اہلکار اور مشیران کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک پہلے 135 دنوں میں 8 ہزار 600 فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔تمام امریکی اور اتحادی 5 فوجی چھاؤنیوں سے اپنے فوجی ہٹا دیں گے۔

امریکا اور اس کے اتحادی ساڑھے 9 ماہ کے دوران ملٹری بیس سمیت افغانستان کے تمام حصوں سے باقی ماندہ فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان کی سیاسی و ریاستی خود مختاری کے خلاف بیان بازی سے گریزاں رہیں گے۔

طالبان، اپنے یا کسی بھی گروہ یا انفرادی شخص بشمول القاعدہ کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہو۔ طالبان واضح طور پر پیغام دیں گے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو سیکیورٹی رسک دینے والوں کے لیے افغانستان میں کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔

امریکا اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں کہا گیا ہے کہ طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی عسکری ٹریننگ اور جنگجوؤں کی بھرتی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

طالبان بین الاقوامی مائیگریشن قوانین کی پاسداری کریں گے۔ طالبان امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خطرہ سمجھے جانے والے شخص، گروہ اور تنظیم کو ویزا، پاسپورٹ، سفری اجازت یا قانونی دستاویزات فراہم نہیں کریں گے۔

Comments are closed.