کورونا وائرس اور پریس ٹی ٹیوٹس۔۔۔ (حصہ اول)

تحریر: مسعود انور

یہ 2010 کی بات ہے کہ انگریزی زبان میں ایک لفظ ’پریس ٹی ٹیوٹس‘ کا اضافہ ہوا۔ یہ لفظ پریس اور پراسٹی ٹیوٹس کا مرکب تھا۔ اس کے معنی ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا سے تعلق رکھنے والا وہ فرد جو کسی مالی منفعت کے لیے کسی خبر یا معلومات کو اس طرح پیش کرے کہ اس کے کسی خاص گروپ کو فوائد حاصل ہوسکیں۔

یہ پریسٹی ٹیوٹ عوام سے اصل معلومات کو چھپاتاہے اور ان کی جگہ پر اصل جیسی محسوس ہونے والی غلط اور جھوٹی معلومات عوام کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ اس کی مطلوبہ تصویر عوام کے سامنے بن سکے ۔ اس لفظ کا خالق تھا امریکی مصنف جیرالڈ سیلینٹ ۔ اس کے معنی کم و بیش تمام ہی ڈکشنریوں میں ایک ہی ہیں ۔ کئی ڈکشنریوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ پریس ٹی ٹیوٹس کا باس اصل میں دلال (پِمپ) ہوتا ہے جو معاملات طے کرکے اپنے ماتحت سے خصوصی اسٹوریز کرواتا ہے۔

پریسٹی ٹیوٹ کا لفظ یوں تو 2010 میں سامنے آیا مگر یہ کردار بہت پرانا ہے۔ نائن الیون کا واقعہ دیکھیں تو پریسٹی ٹیوٹ کا کردار زیادہ سمجھ میں آتا ہے ۔ اس کردار کی وجہ سے پوری دنیا تبدیل ہوگئی۔ دہشت کے نام پر جھوٹی جنگ کی آڑ میں لاکھوں لوگوں کو مار دیا گیا ، کروڑوں کو نقل مکانی کرنا پڑی اور سب سے بڑھ کر فرد کی آزادی کو انتہائی کم کردیا گیا۔ عراق میں ’’ویپن آف ماس ڈسٹرکشن‘‘ کے جھوٹ کو انسانیت آج تک بھگت رہی ہے۔

پاکستان میں ہی ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو قتل کرنے کی خبر دیکھیں تو پاکستانی پریسٹی ٹیوٹ واضح نظر آئیں گے۔ یہ پاکستانی پریسٹی ٹیوٹ ڈیرہ غازی خان کی جیل کے ٹوٹنے، بنوں کی جیل ٹوٹنے سے لے کر آرمی پبلک اسکول پر حملہ تک میں واضح نظر آئیں گے۔ (ان سب موضوعات پر میرے آرٹیکلز میری ویب سائیٹ پر ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں ویب سائٹ کا ایڈریس آرٹیکل کے آخر میں درج ہے)۔ بھارت میں ممبئی حملہ، پارلیمنٹ پر حملہ اور پلوامہ حملہ بھی اسی کی مثالیں ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اب دنیا پریسٹی ٹیوٹس کے ہی سہارے چلائی جارہی ہے۔ پریسٹی ٹیوشن کی تازہ مثال کورونا وائرس ہے۔

کیا این کووڈ نائٹین یا کورونا واقعی ایک ایسی وبا کی صورت اختیار کرگیا ہے کہ وہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور اگر اس کے لیے لاک ڈاون جیسے اقدامات نہ کیے جائیں تو اس دنیا سے نسل انسانی ہی مٹ جائے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو اب لوگوں نے کرنا شروع کردیا ہے۔ کورونا وائرس کے چین میں دریافت ہونے سے لے کر امریکا تک پہنچنے میں غور کریں تو میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہے۔ پہلے دن سے ہی کورونا وائرس پوری دنیا کے مین اسٹریم میڈیا کی پہلی ترجیح تھی۔

پاکستان کی ہی صورتحال دیکھ لیں کہ میڈیا چیخ چیخ کر ہسٹریائی انداز میں کورونا کے مریضوں کی جس طرح سے گنتی گن رہا ہوتا ہے ، اس طرح سے تو کرکٹ کے ورلڈ کپ میں رنز بھی نہیں گنے جارہے ہوتے۔ روز سارے اخبارات کی شہ سرخیاں یہ ہوتی ہیں کہ کورونا کے مریضوں کی تعداد اتنی ہوگئی اور اب تک اتنے مرگئے ۔ آج تک کسی اور مرض کو اس طرح سے جشن کے طور پر نہیں منایا گیا۔

روز کورونا کے چند درجن مریض پاکستان میں دریافت ہوتے ہیں اور ان میں چند جاں بحق ہوجاتے ہیں مگر کورونا کا خوف اس طرح سے پھیلایا گیا ہے کہ ہرانسان دوسرے انسان سے خوفزدہ ہے ۔ اگر آج کسی کو سڑک پر کوئی ایمرجنسی ہوجائے تو کوئی اس کی مدد بھی کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ اجنبی تو دور کی بات ہے ، لوگ کورونا کے شبے میں اپنے پیاروں کو بھی ہاتھ لگانے کو تیار نہیں ہیں ۔

ہر طرف کاروبار زندگی معطل ہے، پولیس ، فوج ، رینجرز سمیت ہر ادارے کو متحرک کردیا گیا ہے کہ کسی جگہ لوگ چلتے پھرتے یا بیٹھے نظر نہ آئیں۔ سوشل میڈیا ہو یا مین اسٹریم میڈیا، ہر طرف کورونا کے بارے میں ایک نئی دریافت پیش کی جاتی ہے جس کے مطابق حیرت انگیز طور پر کورونا کا وائرس ایک جاندار نہ ہونے کے باوجود اس قابل ہے جو مختلف سطحوں پر کئی دن تک زندہ رہنے کی اہلیت رکھتا ہے۔

اس لیے ہر طرف سینی ٹائزر کی مارکیٹنگ جاری ہے۔ ہر جگہ کو ڈس انفیکٹ کرنے کے لیے مسلسل اسپرے کیے جارہے ہیں۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ سارے ہی سینی ٹائزر اینٹی بیکٹیریل ہوتے ہیں اور ان کا کوئی اثر کسی وائرس پر نہیں ہوتا مگر پھر بھی سینی ٹائزر کی بھرپور مارکیٹنگ جاری ہے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ کوئی بھی وائرس ہوا میں ایک منٹ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا ، مختلف مقامات پر ہوا میں اسپرے بھی کیا جارہا ہے۔

اربوں روپے کا یہ زیاں پاکستان میں ہی نہ کیا جائے تو اس سے کتنے ترقیاتی کام کیے جاسکتے ہیں اور کتنے ہی لوگوں کو روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے۔ جراثیم کش اسپرے اور سینی ٹائزر کے اس کثیر استعمال کا خیال کورونا کے پہلے دو ایڈیشنوں سارس اور ایم ای آر ایس میں کسی کو نہیں آیا تھا ۔ نہ ہی اس کا خیال ایچ ون این ون،  ایچ فائیو این ون اور سوائن فلو کے وائرس میں کسی کو آیا تھا ۔

عوام کوخوفزدہ کرنے میں اہم ترین اور واحد کردار پریسٹی ٹیوٹس کا ہے ۔ چین ایک ایسا ملک ہے جہاں پر حکومت کا میڈیا سمیت ہر چیز پر مکمل کنٹرول ہے ۔ اس لیے چین سے باہر جو کچھ بھی خبریں آرہی تھیں وہ سب کچھ چین کی حکومت کی مرضی سے ہی تھا ۔ خبروں کو کنٹرول کرنے کے لیے چین کی حکومت آرٹیفیشل انٹیلی جنس سوفٹ ویئر کے علاوہ 1600 دیگر آن لائن سنسرز استعمال کررہی تھی۔

اس کے لیے کا باقاعدہ ٹرولنگ فیکٹریز استعمال کیا جارہا تھا۔ کسی کے پاس کوئی آزاد ذریعہ نہیں تھا جس سے چینی حکومت کے دعووں کی تصدیق کی جاسکے۔ اس لیے چینی حکومت نے جو تصاویر، وڈیو اور خبریں جاری کیں، انہیں دنیا میں پریسٹی ٹیوٹس نے اسی طرح پیش کیا ، جو ان کے آقا کی منشاء تھی ۔

آج بھی ان ان ٹرولنگ فیکٹریوں کا استعمال دن و رات جاری ہے اور ایسی خبریں پھیلائی جارہی ہیں، جن سے عوام کو زیادہ سے زیادہ خوفزدہ کیا جاسکے۔ کورونا وائرس پر پریسٹی ٹیوٹ کے کردار پر گفتگو آئندہ کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش

سینئر صحافی مسعود انور کے مزید آرٹیکل ان کی  ویب سائٹ پر بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں، ان سے رابطے کیلئے ای میل اور ویب سائٹ کا ایڈریس مندرجہ ذیل ہے:۔

E-mail: hellomasood@gmail.com

https://www.masoodanwar.wordpress.com

Comments are closed.