وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت قومی رابطہ کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں نہ صرف شعبہ سیاحت کو کھولنے بلکہ لاک ڈاؤن میں مزید نرمی کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ جس نے ہر عام و خاص کو شد و مد میں مبتلا کر دیا، کیونکہ عید الفطر کے موقع پر لاک ڈاؤن میں نرمی، مارکیٹیں اور عبادت گاہوں کو کھولنے کا تجربہ سب کے سامنے ہے۔ یہ قدم اٹھاتے ہی کورونا مریضوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا اور کیسز کئی گنا بڑھ گئے۔
وزیراعظم صاحب کا شعبہ سیاحت کو کھولنا سمجھ سے بالاتر صحیح لیکن غریب کی بھوک کا احساس کرنا نہایت ہی خوش آئند امر ہے لیکن کیا کریں کم بخت کورونا کسی امیر یا غریب کا لحاظ نہیں کرتا۔ پیٹ کاٹ کر، سوکھی کھا کر غریب گزارا تو کرلے گا۔ لیکن افسوس وزیراعظم صاحب نے یہ نہیں سوچا کہ کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے کی صورت میں یہی غریب پانچ چھ ہزار روپے مہنگا ٹیسٹ کیسے کرے گا؟
اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ گلگت بلتستان سمیت پاکستان کے شمالی علاقہ جات سیاحوں کے لئے جنت سے کم نہیں اور مقامی آبادی کا رہن و سہن اور کمائی کا اصل دار و مدار سیاحت سے وابستہ ہے۔ لیکن اگر یہی ای سیون، ڈی ایچ اے اور پوش علاقوں میں بسنے والے شہری اگر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کورونا وائرس کی وباء اپنے ساتھ ان سیاحتی مقامات پرلے گئے تو انجام بھیانک ہوگا، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب ان دور دراز علاقوں میں صحت کا شعبہ پہلے سے ہی خستہ حالی کا شکار ہے۔
یہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کورونا ریلیف فنڈ اور ٹائیگر فورس کا پہلے ہی قیام عمل میں لاچکی ہیں۔ لیکن باوجود اس کے مشکل درپیش ہونا فطری سی بات ہے۔ اسی ٹائیگر فورس کے ذریعے ریلیف فنڈ کی تقسیم ان دور دراز علاقوں میں کرادی جاتی تو کورونا کا جن بھی قابو میں آتا اور عوام کو تکلیف میں بھی مبتلا نہ ہونا پڑتا۔
لیکن ہم تو فرانس، سعودی عرب، جرمنی، برطانیہ و دیگر ممالک کے نقش قدم پر چلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اسی لئے ہم نے بھی لاک ڈاؤن کو نرم کرنے اور سیاحت کے شعبہ کو کھولنے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ جن جن ممالک نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ کیا ہے وہاں کورونا پر قابو پالیا گیا اور سب سے بڑی بات ان ممالک میں کورونا پر سیاست نہیں ہورہی ہے۔
دنیا کے برعکس ہمارے ملک میں شروع دن سے سیاست اپنی دکان چمکانے کیلئے کی جاتی ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ سیاستدانوں و حکمرانوں کی ہر پالیسی، ہر قدم، ہر لفظ عوام کی بہتری اور جمہوریت کو پروان چڑھانے کیلئے ہوتا ہے تو ملکی بہتری یقینی ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر کیا ہی اچھا تاثر سامنے آتا۔
نئی خبر یہ ہے کہ کورونا مریضوں کی تعداد میں ہم چین سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ جبکہ 15 مئی کو وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو پیش کی گئی سمری میں انکشاف کیا گیا ہے کہ لاہور شہر میں 6 لاکھ سے زائد کورونا کے مریض ہیں۔ پنجاب میں ایس او پیز پرعملدرآمد نہ ہونے کیوجہ سے مارکیٹوں کو دوبارہ بند کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ذہن میں یہ سوالات ابھر رہے ہیں کہ اس خوف و ہراس کے عالم میں جب لوگ ایک دوسرے سے دور بھاگ رہے ہیں، کورونا وائرس نامی دشمن نظر نہیں آرہا، اور سخت لاک ڈاؤن کے بعد جیبیں خالی پڑی ہیں تو لوگ کیونکر اور کیسے سیر و تفریح کیلئے نکلیں گے؟
علاوہ ازیں ایس او پیز متعارف کروانا آسان لیکن ان پر عملدرآمد کرانا مشکل کام ہے جس کا اندازہ عیدالفطر کی تعطیلات کے دوران ہوگیا ہے کہ کس طرح قاعدے قوانین کی دھجیاں اڑائی گئی جس کی وجہ سے کورونا مریضوں کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ گئی۔
جبکہ اس کا ثبوت یہی ہے کہ پنجاب میں مارکیٹوں کو دوبارہ سے بند کیا جارہا ہے۔ شعبہ سیاحت کو کھولنے کا فیصلہ تب مفید ہوتا اگر عوام و تاجران ایس او پیز پر من و عن عمل کرتی لیکن افسوس کہ ایسا ممکن نہیں۔
حکومت کو چاہئیے کہ عوام کی صحت کو ہی اپنی تمام تر ترجیحات میں نمایاں رکھے اور اس مشکل دور میں یک دم سے فیصلہ اور پھر اس پر یوٹرن لینے کی پالیسی کو ترک کرکے، فیصلہ لیتے وقت غور و فکر سے کام لے۔ جبکہ تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئیے کہ سیاست کے نام پر اپنی دکانیں چمکانا چھوڑ دیں۔ اور اپنی سیاست کا مہور و منبر عوام کی بہتری بنا لے۔ کورونا ہم سب کا مشترکہ دشمن ہے اس کو مل کر شکست دینی ہے۔
Comments are closed.