کراچی طیارہ حادثے کی وجہ فنی خرابی نہیں، انسانی غلطی تھی، تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف

اسلام آباد:  قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کے طیارے کو کراچی ایئرپورٹ کے قریب پیش آنے والا حادثے کو انسانی غلطی قرار دے دیا گیا، تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بلیک باکس ڈیٹا سے طیارہ میں کسی فنی خرابی کے شواہد نہیں ملے۔

وفاقی وزیر غلام سرور کی زیرصدارت ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ایوی ایشن ڈویژن میں ہوا جس میں کراچی طیارہ حادثہ کی ابتدائی رپورٹ پیش کی گئی، تحقیاتی ٹیم کے سربراہ ایئرکموڈورعثمان غنی نے ابتدائی تحقیقات پر اجلاس کو بریفنگ دی، اجلاس میں سیکرٹری سول ایوی ایشن، ڈی جی سول ایوی ایشن اور ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انوسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ سمیت متعلقہ اداروں کے حکام شریک تھے۔

نیوز ڈپلومیسی کو موصول رپورٹ کے مندرات کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں پائلٹس اور ایئر ٹریفک کنٹرول عملے کی مسلسل غلطیوں کی نشاندہی ہوئی ہے، پہلی لینڈنگ پرجہاز 9 ہزار میٹر کے رن وے کے درمیان میں آکر ٹکرایا جس کے بعد پائلٹ اسے دوبارہ اڑا کر لے گیا، حالانکہ جہاز کو دوبارہ اڑانا نہیں چاہیئے تھا۔

دوبارہ ٹیک آف کے بعد جہاز کو 17 منٹ تک فضا میں اڑایا گیا، اس دوران  پرواز کے انجن فیل ہوگئے، جہاز شروع سے ہی زائد رفتار اور اونچائی پر آرہا تھا، لینڈنگ پوزیشن میں آنے پر بھی جہاز کی اونچائی مقررہ حد سے زیادہ تھی، ناکام لینڈنگ کے12 گھنٹے بعدتک جہاز کے پرزے رن وے پر موجود رہے لیکن ایئرسائٹ یونٹ نے انہیں اکٹھا نہیں کیا۔

تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ تباہ ہونے والے جہاز کا پہلا انجن 25 فروری 2019 اور دوسرا27 مئی 2019 کو لگایا گیا جب کہ تینوں لینڈنگ گیئر18 اکتوبر 2014 کو انسٹال ہوئے، بدقسمت طیارے کا آخری چیک اے 21 مارچ 2020 کو جب کہ آخری بار مکمل معائنہ 2018 میں کیا گیا، تباہ ہونے والا جہاز کی 2004 میں مینوفیکچرنگ ہوئی جس حساب سے طیارے کی عمر 16 سال تھی۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ متاثرہ جہاز کو اکتوبر 2014 میں پی آئی اے فلیٹ میں شامل کیا گیا، تباہ ہونے والے جہاز مجموعی طور پر 47ہزار 124 گھنٹے محو پرواز رہا، بلیک باکس ڈیٹا سے طیارہ میں کسی تکینیکی خرابی کے شواہد نہیں ملے، ابتدائی رپورٹ میں حادثہ انسانی غلطی سے پیش آنے کا شبہ ظاہر کیا گیا۔
خیال رہے کہ پی آئی اے طیارہ حادثہ کی تحقیقاتی رپورٹ وزیراعظم عمران خان کو پیش کی جائے گی جس کے بعد اسے قومی اسمبلی اجلاس میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

Comments are closed.