سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی افسران، ججوں کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ غیرآئینی وغیرقانونی قرار دے دی، عدالت نے قرار دیا ہے کہ آئین و قانون ججوں اورفوجی افسران و اہلکاروں اور مسلح افواج کو سرکاری اراضی لینے کا حق نہیں دیتا۔
فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائزہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں، ہائیکورٹ نے فیڈرل ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کا زمین حاصل کرنے کا اختیارختم کر دیا تھا،سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے مختصر فیصلہ سنایا تھا۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ملک کا آئین اور کوئی بھی قانون چیف جسٹسز، جج صاحبان اور افواج پاکستان کے افسروں و جوانوں کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ سرکاری زمین لیں۔ حکومت کا جج صاحبان اور فوجی افسران کو زمین دینا انہیں نوازنے کے مترادف ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قرار دیا ہے کہ عوام کی نظروں میں جج صاحبان کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لئے خودمختارعدلیہ انتہائی ضروری ہے، سرکاری زمین حاصل کرنے کی تین شرائط ہیں جن میں پہلی شرط یہ ہے کہ زمین عوامی مقصد کے لئے حاصل کی جائے، دوسری شرط کے مطابق زمین کے حصول کا قانون ہونا چاہئے اور تیسری شرط یہ ہے کہ قانون میں زمین حاصل کرنے کے لئے معاوضہ دیا جانا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک عوامی فلاح کے لئے زمین حاصل کرنے کا سوال ہے تو یہاں آئین خاموش ہے، معیاری رہن سہن بنیادی ضروریات میں شامل ہے جو ثابت کرتے ہیں کہ عوامی مقصد کے لیے ہاؤسنگ سکیم بنائی جا سکتی ہے۔اگر زمین مالکان معاوضے سے مطمئن نہ ہوں تو وہ متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا حق رکھتے ہیں، اضافی نوٹ میں قرار دیا گیا ہے کہ کہ کوئی وکیل یا سرکاری ملازم ایک پلاٹ سے زیادہ پلاٹ لینے کا حقدار نہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید لکھا ہے کہ کسی مخصوص قانون کو شامل کئے بغیر وزیراعظم سمیت کوئی بھی اپنے صوابدیدی اختیاراستعمال کرکے کسی کو پلاٹ نہیں دے سکتا، کم آمدنی والے سرکاری ملازمین اور جونیئر افسران کے لئے کم قیمت پلاٹ دستیاب ہونے چاہئیں، بری، بحری اور فضائی افواج یا ان کے ماتحت کوئی بھی فورس رہائشی، زرعی یا کمرشل زمین لینے کا حق نہیں رکھتی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں شامل اضافی نوٹ میں جنرل گریسی اور ایوب خان کا واقعہ بھی تحریر ہے کہ جب جنرل گریسی پاکستانی فوج کو کمان کر رہے تھے تو ایوب خان نے پلاٹ لینے کی درخواست کی تھی، اس وقت کے آرمی چیف جنرل گریسی نے ایوب خان کو پلاٹ دینے سے انکار کر دیا تھا، حیران کن طور پر ایک برطانوی افسر نے اس ملک کی زمین کو اسی دھرتی کے سپوت سے بچایا۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے مطابق شجاع نواز نے اپنی کتاب میں لکھا کہ”فوج اورسول بیوروکریسی میں ایک سے زائد پلاٹس کا کلچرعام ہے،گزرتے وقت کے ساتھ فوج میں ایسی ’’سویٹ ہارٹ ڈیلز‘‘ کو قابلِ قبول بنایا گیا۔
اضافی نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ آئین کے تحت سرکاری سول اور فوجی ملازمین مساوی حیثیت رکھتے ہیں، سول سرونٹس 60 سال، ہائیکورٹس کے چیف جسٹس 62 سال کی عمر میں ریٹائر ہوتے ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال ہے۔
جسٹس فائزعیسیٰ نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ اگرججوں کے پاس رہنے کے لئے جگہ نہیں تو انہیں زندگی گزارنے کے لیے معقول پینشن دی جاتی ہے، مالی سال 2020-21 کیلئے پنشن کی مد میں 4 کھرب 70 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، ایک کھرب 11 ارب روپے سرکاری ملازمین کی پنشن کیلئے مختص کئے گئے ہیں۔ جبکہ 3 کھرب 59 ارب روپے سے زائد کی رقم افواج پاکستان کے ریٹائرڈ افسران اور اہلکاروں کیلئے رکھی گئی ہے۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پنشن کی مد میں ادا ہونے ہونے والی رقم سویلین حکومت چلانے کے اخراجات کے تقریباً مساوی ہے، حکومت بیرون ممالک سے قرض لے کرخسارہ بڑھا رہی ہے، رواں مالی سال میں 29 کھرب 46 ارب روپے سے زائد کی رقم قرض کی صورت میں ادا ہونی ہے، وہ بچے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے اور جو ابھی پیدا ہونے ہیں ان کے بچے بھی غربت کا شکار ہوں گے، پاکستان کا فوجی اور عدالتی نظام برطانوی طرز پرقائم ہے۔
اضافی نوٹ میں مزید کہاگیا ہے کہ بیشتر پاکستانیوں کو بنیادی رہائش کی سہولت تک میسر نہیں، قرآن میں لکھا ہواہےکہ غریبوں اورناداروں کی مدد کی جائے،ملک کی زمین اشرافیہ میں تقسیم کرنا قرآن کے اصول کی نفی ہے، فیصلے میں مزیدکہا گیا ہے کہ مالی سال 21-2020 میں پینشن کی مد میں خرچ ہونے والی رقم 470 ارب روپے ہوگی جن میں سے 111 ارب روپے ریٹائرڈ شہریوں اور 359 ارب روپے مسلح افواج کے ریٹائرڈ اہلکاروں پر خرچ ہوں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ پینشن ادائیگیوں کی سالانہ لاگت ’سول حکومت کو چلانے‘ کی لاگت کے برابر ہے جو 476 ارب ہے اور پاکستانی عوام یہ پینشن ادا کرتے ہیں حالانکہ انہیں اس میں سے خود بہت کم رقم ملتی ہے، انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘پینشن وصول کرنے کے علاوہ سرکاری اراضی بھی لی جاتی ہیں جو سراسر غیر منصفانہ عمل ہے، پاکستان بری طرح مقروض ہے اور لوگ ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے بڑی بڑی رقوم ادا کر رہے ہیں‘۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ اس مالی سال کے دوران 20 کھرب روپے سروسز کے قرض پر ادا کیے جائیں گے، اس بڑی رقم میں ایک بھی ڈالر، اسٹرلنگ، یان، یورو یا روپے کی ادائیگی شامل نہیں ہے اور حکومت مزید قرض لینا جاری رکھے ہوئے ہے، جسٹس عیسیٰ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اشرافیہ کی کرپشن نے ایک ‘شکاری ریاست’ پیدا کی ہے جس میں نجی اور عوامی مفادات کے مابین تقسیم کو بالکل ختم کردیا گیا ہے۔
Comments are closed.