صحافت آج جمہوری نظام میں چوتھے ستون کا درجہ رکھتی ہے۔واقعات یا حقائق جاننے کا نام صحافت ہے۔عوام کو سچائی اور تمام واقعات سے باخبر رکھنا صحافت ہے۔سچائی پر ہی صحافت کی تعمیر ہوتی ہے۔ وہ لفظ جسے ہم زبان اردو میں ’’صحافت کہتے ہیں در اصل عربی زبان کے لفظ ’’صحیفہ ‘‘ سے ماخوذ ہے۔جس کے لغوی معنی صفحہ، کتاب، رسالہ، ورق کے ہیں۔
لیکن موجودہ دور میں صحافت کا مطلب بدل چکاہے۔ مٹھی بھر صحافیوں کے علاوہ باقی سب مفادانہ صحافت کرتے ہیں۔صحافت ایک پیغمبری پیشہ تھا
اور اب ؟کچھ صحافی تو باقاعدہ بلیک میلر بھی ہے۔ پہلے کسی نہ کسی طریقے سے سکینڈل بنواتے ویڈیو اور تصاویر بنا لیتے اور ساری عمر تنخواہ لیتے ہے اُن کا ٹارگٹ زیادہ تر بڑے افسر سرمایہ دار اور معاشرے میں اعلیٰ حیثیت رکھنے والے لوگ ہوتے۔
صحافت جیسے پاک پیشے کو معاشرے کی چند کالی بھیڑوں نے اتنا بدنام کیا ہوا ہے کہ پوچھیے مت جہاں سے کھانا اور پرٹوکول مل جاۓ بس انہیں کی خبریں اور باقی سب اچھا ہی کی رپورٹ دینا ہوتی ہے میں نے آج تک کسی صحافی کو غریب کیساتھ دل سے ہمدردی کرتے نہیں دیکھا بس کوئی بیورکریٹ اعلیٰ افسران ایم پی اے ایم این اے کا درباری بننا پسند کرتے ہے اور اُن کے دفتروں پر مکمل کنٹرول کرتے ہے اور بڑے بڑے افسران کو اُنگلی پر نچاتیں ہے۔حالانکہ صحافت معاشرے کا اہم ستون ہوتا ہے اور اسکے ساتھ وابستہ لوگوں کی تاریخ پڑھو تو بندے کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کیسے کیسے اچھے لوگ ہوا کرتے تھے۔
اچھے پاک صحافی آج بھی ہیں مگر انکی تعداد نا ہونے کے برابر ہے اگر بندہ برصغیر پاک و ہند ہی کی تاریخ دیکھ لے تو بڑے نامور صحافی رہ چکے ہیں جن میں مولانا ظفر علیخان اور آغا شورش کشمیری جیسے صحافیوں کو سچ لکھنے کی پاداش میں بارہا کوڑے مارے گئے اور زندانوں میں ڈالا گیا پر وہ لوگ سچ لکھنے سے باز نہیں تھے۔یہ بلیک میلر صحافی ایک منظم گروہ کی طرح ہوتے ہے اور آسیب بن کر پیچھے پڑ جاتے ہے اور ساری عُمر جن کے سکینڈل بناۓ ہوتے ہے اُن سے اپنے تمام اخراجات وصول کرتے رہتے ہے۔
صحافت جیسے مقدس شعبے کو ان کالی بھیڑوں سے آزاد کروانے کی ضرورت ہے اس کے لئے نوجوان پڑھے لکھے طبقے کو آگے آناہوگا تاکہ اصل خبر سامنے آئے۔
Comments are closed.