اسلام آباد:سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی ۔جسٹس عمر بندیال نے ریمارکس دئیے کہ جمہوریت کا تقاضا ہے پارٹی سسٹم مضبوط ہو ،انتحابی اتحاد کبھی خفیہ نہیں ہوتے، کسی انفرادی شخص سے اتحاد ہو تو ہی خفیہ رکھا جاتا ہے۔ رضا ربانی نے کہاکہ رضا ربانی نے کہا کہ پی ٹی آئی کراچی میں مردم شماری کے لیے جلد فنڈز دے گی،بدلے میں ایم کیوایم سینیٹ کے لیے پی ٹی آئی کو ووٹ دے گی،کیا عدالت اس عمل کو کرپشن قرار دے گی؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لیں گیے،سیاسی اتحاد خفیہ نہیں رکھے جائیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اختلاف رائے کرنے والے نتائج کی پرواہ نہیں کرتے۔ڈکٹیٹر کے خلاف بھی لوگوں نے کھل کر اختلاف رائے کیا۔آئین میں اختلاف رائے پر کوئی نااہلی نہیں ہوتی۔
پیپلز پارٹی کے وکیل رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ 1962 کا آئین صدارتی نظام کے حوالے سے تھا،جس میں خفیہ ووٹنگ کی شق شامل تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 1962 کے آئین کی خفیہ ووٹنگ والی شق کی عدالت نے 1967 میں تشریح کی تھی۔ پاکستان کا آئین آئرلینڈ کے دستور سے مماثلت رکھتا ہے۔رضا ربانی نے کہا کہ اٹھارہوں ترمیم میں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے الیکشن دوبارہ اوپن بیلٹ سے ہوئے ،وزیراعظم کا الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے کا مقصد پارٹی ڈسپلن تھا، اسپیکر اور چیئرمین سینٹ کے الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہوتے ہیں۔۔چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم اور وزرائے اعلی ٰکے الیکشن پر آرٹیکل تریسٹھ اے کا اطلاق بھی ہوتا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ جس سسٹم کو جاری رکھنا چاہتے ہیں وہ انفرادی ہیروازم کو فروغ دیتا ہے، جب تک ہم عرصہ دراز سے جاری طریقہ کار میں تبدیلی نہیں لائیں گے ،جمہوریت کی مضبوطی خواب رہے گی،ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس حوالے سے بھی دلائل دیں،عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed.