مقبوضہ کشمیر میں مسلسل پابندیاں۔۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی بھارت پر کڑی تنقید

لندن میں قائم انسانی حقوق کی عالمی تنظیم”ایمنسٹی انٹرنیشنل“نے بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں شہری آزادیاں سلب کرنے، شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاج کرنے والوں اور کسان مظاہرین کے ساتھ بہیمانہ رویہ روا رکھنے اورکورونا وبا کے سلسلے میں سخت لاک ڈاؤن کے نفاذ سے شہریوں کی زندگیوں کی اجیرن بنانے پر بھارت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ”سٹیٹ آف دی ورلڈ ہیومن رائٹس 2020،2021 “کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں 149 ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے اور اسے دو یونین ٹیریٹوریز(مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں) میں تقسیم کئے جانے کے ایک سال بعد بھی شہری آزادیوں پر قدغنیں اور مواصلاتی ذرائع پر پابندیاں عائد ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت احتساب کا مطالبہ کرنے والوں کو مسلسل خاموش کرا رہی ہے اور اس نے علاقے میں میڈیا پر بھی سخت قدغنیں نافذ کر رکھی ہیں۔ رپورٹ میں کہاگیا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی پولیس نے کم سے کم 18 صحافیوں پر حملہ کیا یاانہیں تھانوں میں طلب کیا۔ رپورٹ میں کہاگیا کہ حکومت کی طرف سے مقبوضہ علاقے میں ایک نئی میڈیا پالیسی متعارف کرائے جانے کے بعد سے اختلاف رائے کو دبانے کی مزید کوششیں کی گئیں اور ملک دشمن سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے نام پر ذرائع ابلاغ میں حکومت کا مخصوص بیانیہ پیش کیاجارہا ہے۔

 رپورٹ میں کہاگیا کہ 20 اکتوبر کو قابض حکام نے” کشمیرٹائمز“ کے دفترکو کوئی پیشگی نوٹس دیے بغیر بند کر دیا کیونکہ اس کی ایڈیٹر انورادھابھسین نے بھارتی سپریم کورٹ میں مواصلاتی بندش کو چیلنج کیا تھا۔رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ این آئی اے (نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی) نے مقبوضہ جموںوکشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے والے خرم پرویز ان کے تین ساتھیوں اورپروینہ آہنگر سمیت سول سوسائٹی کے کارکنوں کے دفاتر اور رہائش گاہوں پر بھی چھاپے مارے اور ان پرعلیحدگی پسندسرگرمیوں کے لئے فنڈز جمع کرنے کا الزام لگایا۔

رپورٹ میں کہاگیا کہ 30 ستمبر2020 کوحکومت نے پیشگی نوٹس کے بغیرایمنسٹی انٹرنیشنل بھارت کے بینک اکاو ¿نٹس منجمد کرکے اسے ملک میں اپنا کام روکنے پر مجبور کردیا۔ یہ اقدام دہلی فسادات کے دوران پولیس اور حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر کارروائی کے ایمنسٹی کے مطالبے کے بعد کیاگیا،مذہبی اقلیتوں پر حملوں میں ملوث جتھوں اور پولیس افسران کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا اور قاتلوں اور حملہ آوروں کو وسیع پیمانے پر استثنیٰ دی جاتی ہے اور اس حوالے سے احتساب کا فقدان ہے۔

 رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ برس مارچ میں کورونا کی وجہ سے لگائے جانے والے لاک کے دوران پولیس نے تارکین وطن مزدوروں کو اس حوالے سے ضوابط کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں دیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ لاک ڈاون کے ضوابط کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار ہونے والوں میں اکثریت کا تعلق پسماندہ طبقات سے ہے۔

Comments are closed.