سانحہ بادالوناقونصل خانہ بارسلوناکا پہلا امتحان، عام آدمی قونصل خانہ کی کارکردگی پرمطمئن کیوں!
تحریر: سید شیراز بارسلونا
یہ 5 جنوری 2019 ہفتے کا دن تھا جب بادالونا میں آتشزدگی کا سانحہ پیش آیا۔ سانت روک کے علاقے میں ایک بلڈنگ کو آگ لگ گئی تھی۔ اس علاقے میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے۔ اس وقت یہ خیال کیا جارہا تھا کہ بلڈنگ میں پاکستانیوں کی رہائش ہے کہیں وہ بھی اس آتشزدگی کی لپیٹ میں نہ آگئے ہوں۔ بعد ازاں بدقسمتی سے یہ بات سچ ثابت ہوئی۔ ہلاک ہو جانے والے تین افراد کا تعلق پاکستان سے تھا دیگر 15 زخمیوں میں بھی پاکستانی باشندے شامل تھے اور ایک بڑی تعداد بےگھر ہوچکی تھی۔
متاثرہ بلڈنگ کے باہر مقامی میڈیا کے نمائندے موجود تھے۔ متاثرین کی بحالی کے کے لیے فوری طور پر بلدیہ بادالونا نے ایک کیمپ لگا دیا تھا۔ مجھ سمیت پاکستانی کمیونٹی کے کچھ اور افراد اس وقت اس کیمپ میں موجود تھے جب پاکستانی قونصل جنرل بارسلونا وہاں متاثرہ افراد کی عیادت کرنے پہنچے تھے۔ لوگ خوفزدہ تھے اس آگ لگنے کے بعد بھی الیگل امیگرنٹس کو پولیس کا خوف تھا کہ کہیں ایک کے بعد دوسری مصیبت گلے نہ پڑ جائے یوں سمجھ لیں کہ وہ اپنے زخم چھپا رہے تھے۔ ایسے میں میں نے قونصل جنرل کو وہاں موجود متاثرہ افراد سے بات چیت کرتے اور انہیں حوصلہ دیتے دیکھا تھا۔
اگرچہ مقامی این جی اوز اور سرکاری ادارے مکمل تعاون فراہم کر رہے تھے لیکن پھر بھی متاثرہ افراد کے لیے بہت سے مسائل ایسے تھے جو قونصل خانے سے متعلقہ تھے۔ خاص کر آتشزدگی میں پاسپورٹ اور دیگر ضروری کاغذات وغیرہ کا پھر سے حصول۔ اس وقت انہوں نے تمام متاثرہ لوگوں کو فوری اور مفت کاغذات بنا کر دینے کا وعدہ کیا۔ لیکن اصل مسئلہ مکمل طور پر جل جانے والی باڈیز کی شناخت اور شناخت شدہ ڈیڈ باڈیز کو پاکستان بھیجنے کا تھا۔ ایسے میں قانونی پیچیدگیوں کے باعث ڈیڈ باڈیز لمبے عرصے تک روک لی جاتی ہیں۔ اور دوسرا اہم مسئلہ اس پر اٹھنے والے اخراجات کو برداشت کرنے کا تھا۔اس وقت تک میرے علم میں یہی تھا کہ قونصل خانہ ایک جسد خاکی کے لیے ایک ہزار یورو کی رقم فراہم کرتا ہے باقی کے انتظامات لواحقین یا کمیونٹی کو کرنے پڑتے ہیں۔
ٹیکسی سیکٹر سے بہت سے دوست گذشتہ چند برسوں سے بہت سی ڈیڈ باڈیز کے لیے چندے کا انتظام کر چکے تھے۔ اس حوالے سے مختلف گروپس کے لوگوں نے ایک کمیٹی بھی بنا رکھی تھی۔ اگرچہ باضابطہ طور پر ابھی حکومت کی طرف سے کل تعداد نہیں بتائی گئی تھی لیکن زہنی طور پر تیار رہنے کی باتیں ہورہی تھیں۔ ہم چند دوستوں نے گروپس (زیلو) میں بات کی تھی کہ ہوسکتا ہے کہ اس بار ہمیں ایک بڑی رقم کا انتظام کرنا پڑے۔دو دن بعد قونصل خانے میں اس سانحے کو لیکر ایک میٹنگ کال کی گئی ۔ بہت سے کمیونٹی ممبرز وہاں موجود تھے۔ایک ڈیڈ باڈی کی شناخت کا مسئلہ تھا جو مکمل طور پر جل چکی تھی لیکن وہ تمام واقعاتی شہادتیں موجود تھیں جس سے اس کی شناخت ممکن تھی۔
اس وقت میں نے اپنے دوستوں کی رائے سے قونصل جنرل کو یہ پیشکش کی تھی کہ اگر ان ڈیڈ باڈیز کو بھیجنے کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہو تو ٹیکسی سیکٹر حاضر ہے لیکن قونصل جنرل شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے شہید ہیں اور حکومت ان کا خرچہ خود برداشت کرے گی۔اور ایسا ہی ہوا نہ صرف یہ کہ تمام جسد خاکی پاکستان بھیجے گئے بلکہ خصوصی تگ و دو کے بعد مکمل جل جانے والے جسد خاکی کو عدالتی حکم کے بعد غالبا شہادتوں کی بنیاد پر پاکستانی تسلیم کرتے ہوئے پاکستان بھیجا گیا تھا۔اس کے بعد مختلف واقعات، جیسے قتل، خودکشی اور پھر آتشزدگی کے سانحات اور کرونا وبا کے دوران وفات پا جانے والوں کے حوالے سے کمیونٹی اور خاص کر قونصل جنرل اور ان کے عملے کے افراد کا کردار قابل تحسین ہے۔بہت سی ڈیڈ باڈیز کے اخراجات سو فیصد کچھ کے پچاس یا ستر فیصد تک سرکاری خزانے سے ادا کیے گئے۔
وبا کے دوران سینکڑوں لوگوں کی مالی مدد اور راشن پیکجز بھی دیے گئے۔
شائد یہی وجہ ہے کہ اس شہر کا عام آدمی قونصل جنرل عمران علی اور قونصل خانے کی تعریف کرتا نظر آتا ہے۔انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ جہاں اس بات کا زکر کیا ہے کہ عام آدمی تعریف کرتا نظر آتا ہے وہاں خواص میں سے ان کچھ کا زکر بھی کیا جائے جو قونصل خانے پر تنقید اور مسلسل تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ اپنی اپنی ذات کے دائروں میں قید یہ خواص شائد بھول چکے ہیں کہ سفارتی عملہ تین سال بعد اپنی مدت ملازمت کے بعد کسی اور اسٹیشن پر فرائض منصبی ادا کر رہا ہو گا لیکن تنقید کا جو معیار طے کیا گیا ہے تو کیا نیا آنے والا آفیسر ان کی توقعات پر پورا اتر سکے گا۔ اگر خدانخواستہ کسی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جس میں عوام کو ریلیف نا ملا تو کیا یہی تنقیدی نشتر جو اس وقت چلائے جاتے ہیں وہی چلائے جاتے رہیں گے ۔یا اس وقت اگلے تین برسوں کے لیے قونصل خانے سے تعلقات کی بحالی پر کوئی نیا پروگرام پیش کیا جائے گا۔
Comments are closed.