کیا طالبان جدید دنیا کےتقاضوں سےہم آہنگ ہوچکے ؟

تحریر: عمران اعظم

 افغانستان کی صورت حال میڈیا کی اصطلاع میں اس وقت ایک ڈیویلپنگ اسٹوری ہے جس کے حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی ، لمحہ بہ لمحہ بدلتے حالات،واقعات اور پس پردہ اطلاعات کو ملا کرصحافی اورتجزیہ کار اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں جس کا مکمل طور پردرست ہونا ممکن نہیں تاہم مستقبل کے منظر نامے کو سمجھنے میں راہنمائی ضرو رمل سکتی ہے۔

 سردست بنیادی سوالات یہ ہیں کہ کیا طالبان افغانستان میں تنہا حکومت بنائیں گے یا وہ شراکت اقتدار کے کسی فارمولے پر راضی ہوں گے؟ پاکستان افغانستان میں کس طرح کی حکومت چاہتا ہے؟ نئی افغان حکومت کے تعلقات پاکستان کے ساتھ کیسے ہوں گے؟ کیا پاکستان تنہا طالبان کی نئی حکومت کو قبول کرلے گا؟ عالمی دنیا کا رویہ اس بارطالبان کے ساتھ کیسا ہو گا؟  کیا چند دنوں میں ہی افغانستان میں سب اچھا ہو جائے گا ؟ یا یہ گتھی جلد سلجھنے والی نہیں؟

 اسلام آباد میں مو جود باخبر ذرائع کے مطابق اس بار پاکستان کبھی نہیں چاہے گا کہ طالبان افغانستان میں تنہا حکومت بنائیں، کیوں کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ شراکت داری پر مبنی حکومت میں ہی پاکستان اور افغانستان دونوں کی بھلائی ہے، عالمی دنیا سوائے ان چند ممالک کے جن کے افغانستان میں اپنے مفادات ہیں، طالبان کو قبول نہیں کرے گی اور اگر جلد یا بدیر قبول کر بھی لے توانسانی، بالخصوص خواتین کے حقوق کولے کرتنقید اور دباو کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گی، اس لیے ضروری ہے کہ ایک وسیع البنیاد حکومت بنائی جائے،بے شک اس میں بڑا حصہ طالبان کو ملے۔

پاکستان کی سیاسی اور خاص کر عسکری قیادت کے خدشات اس سے ہٹ کر بھی ہیں، طالبان کی اس فتح کو پاکستان میں خاص کر مذہبی طبقات میں جس طرح کی پذیرائی مل رہی ہے یہ نیشنل ایکشن پلان کے ثمرات کے لیے کسی بھی وقت خطرات کا باعث بن سکتی ہے، کالعدم تنظیموں کو پڑوس کی فتح سے نئی تحریک مل سکتی ہے اور حزب التحریر جیسی تنظیموں کے لوگ پھر سے کسی مہم جوئی کا سوچ سکتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں ماضی میں ہونے والی دہشت گردی کی لہر دوبارہ ممکن نہیں، کیونکہ ملک کے اندر دہشگردوں کے خاتمے کے بعد  اب طالبان کے آنے سے افغانستان میں بھی راء اور این ڈی ایس کا نیٹ ورک یقیناً ٹوٹ جائے گا۔ حساس اداروں کے مطابق بھارت جو اس وقت دہشت گردی کے 87 بڑے کیمپس چلا رہا ہے ان میں سے 66 افغانستان میں ہیں اور ان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی جاتی رہی ہے، اب طالبان کم سے کم ان کیمپس کو چلانے کی اجازت نہیں دیں گے۔

دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ یہ وہ طالبان نہیں جو دو د ہائی قبل افغانستان میں برسر اقتدار تھے ، بیس، بائیس برسوں میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے، اُس وقت طالبان کی تمام امیدوں کا محور و مرکز صرف پاکستان تھا، اب ایسا نہیں ہے،2021 میں طالبان کے دنیا کے کئی ممالک سے روابط استوار ہو چکے ہیں اور وہ بھارت سے بھی اپیل کر رہے ہیں کہ وہ افغانستان میں اپنے منصوبوں پر کام جاری رکھے کیونکہ یہ منصوبے افغان عوام کی فلاح کے لیے ہیں۔

 افغان طالبان نے اگرچہ آج تک پاکستان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے لیکن 9/11 کے بعد امریکہ کی ایک کال پر پاکستان نے افغان طالبان کے ساتھ جو سلوک کیا، تمام سفارتی آداب کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پاکستان میں اس وقت کے افغان سفیر ملاعبدالسلام ضعیف کو گرفتار کر کے 9 سال جیل میں رکھا اور پھر امریکی حکام کے حوالے کردیا، ان تلخ تجربات کے بعد طالبان اب صرف پاکستان پر تکیہ کرنے کی غلطی ہر گز نہیں کریں گے۔

سابق سفیر اور افغان امور کے ماہر رستم شاہ مہمند نے ملا ضعیف کو نقل کرتے ہوئے ایک تقریب میں اظہار خیال کیا کہ ملا عبدالسلام ضعیف کو پشاور میں امریکی حکام کے حوالے کرتے وقت ان کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز رویہ اختیا رکیا گیا، امریکی اہلکاروں نے پاکستانی آفیسرز کے سامنے انہیں برہنہ کر دیا، لیکن پاکستانی فوجی افسر ایک لفظ تک نہ بول سکے۔ ملا عبدالسلام ضعیف کے مطابق یہ ان کے لیے زندگی کا سب سے ذلت آمیز لمحہ تھا۔

یوں ان خدشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستان اس بار طالبان مخالف شمالی اتحاد کے رہنماؤں سمیت دیگرافغان گروپوں کے ساتھ بھی بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ عالمی سیاست اور سفارتکاری میں ایک ہی چیز مستقل ہوتی ہے اور وہ ہے ریاست کا مفاد، کسی بھی ملک یا گروہ کیساتھ دوستی یا دشمنی ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی۔ رواں ہفتے افغان رہنماوں کے اعلی ٰ سطح اٹھ رکنی وفد نےصلاح الدین ربانی کی سربراہی میں پاکستان کا اہم دورہ بھی کیا۔ افغان وفد میں محمد یونس قانونی، استاد محمد کریم خلیلی، احمد ضیاء مسعود، استاد محمد محقق، احمد ولی مسعود، عبدالطیف پدرم اور خالد نور شامل تھے۔

وفد کا اسلام آباد میں بھرپور خیر مقدم کیاگیا۔ وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے دفتر خارجہ میں اہم ملاقاتیں ہوئیں۔ جن میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے افغان وفد کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان افغانستان میں تمام فریقین کی شراکت پر مبنی مضبوط حکومت اور اس کے ذریعے دیرپا ءامن چاہتا ہے، افغانستان میں کوئی فریق پاکستان کا پسندیدہ نہیں۔

 اس سب کے ساتھ افغانستان کے مستقبل اور دوسرے ممالک کی افغانستان کے حوالے سے جوابی حکمت عملی کا مکمل دردارومدار طالبان قیادت کے رویے پرہے؟ کیا طالبان اب کی بار بھی سخت شرعی قوانین کے ساتھ نظام حکومت چلائیں گے یا خود کو دنیا کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے بڑی لچک کا مظاہرہ کریں گے، اب تک کے رویے سے طالبان نے یہ تاثر دینے کی کوشش ہے کہ وہ افغانستان میں خواتین کےحقوق کا مکمل احترام کریں گے اور انہیں تعلیم حاصل کرنے اور نوکری کی آزادی ہو گی۔ اگر طالبان لچک کا مظاہرہ کرتے ہیں تو کچھ ممالک کے لیے تو وہ قابل قبول ہو جائیں گے۔

تاہم امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک ڈومور کامطالبہ کریں گے اور ظاہر ہے طالبان ایک حد سے آگے جا نہیں سکیں اوریہیں سے خرابی پیدا ہوگی اور مغرب کا دباو بڑھنا شروع ہو جائے گا۔ پاکستان چاہتا ہے کہ ایسی کسی بھی صورت حال کا ملبہ اس پر نہ گرے، اگر افغان حکومت میں اعتدال پسند رہنما موجود ہوں گے تو پاکستان کو مشکل صورت حال سے دوچار نہیں ہونا پڑے گا لیکن اگر شمالی اتحاد کے رہنماوں سمیت دیگر فریقین جو مغرب کے لیے قابل قبول ہیں، اقتدار سے باہر رہے تو یقینی طور پر بھارت سمیت کئی ممالک ان کی پشت پر کھڑے ہو کر افغانستان کو ایک با رپھر پراکسی وار کا اکھاڑہ بنا دیں گے جو کسی بھی طرح پاکستان کے مفاد میں نہیں۔

 پاکستان کے ساتھ چین، روس اور ایران بھی اب ایک پُرامن افغانستان کے خواہاں ہیں تاکہ یہ خطہ مجموعی طور پر ترقی کر سکے۔ ترکی اور قطر بھی ان ممالک کی کوششوں میں ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں لیکن اس سب کا انحصار طالبان قیاد ت پر ہے کہ وہ اپنے لیے اور افغانستان کے لیے کس راستے کا ا نتخاب کرتے ہیں۔ فیصلہ انہوں نے کرنا ہے، پاکستان صرف مشورہ دے سکتا ہے کیونکہ پاکستان آج کے طالبان کو کوئی بھی بات سو فیصد منوانے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں، اگر کوئی یہ سوچتا تو وہ سراسر غلط ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ طالبان پاکستان کی بات کو سمجھیں گے اور ماضی کی غلطیوں سے اجتناب کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔

Comments are closed.