صحافی محسن بیگ کے گھر ایف آئی اے کا چھاپہ اختیارات سے تجاوز قرار

 اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحافی محسن بیگ کے گھر ایف آئی اے کا چھاپہ اختیارات سے تجاوز قرار دےد یا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈرز کے لیے مسلسل اختیارات کا غلط استعمال کر رہی ہے ۔ کسی جمہوری ملک میں کسی ایجنسی یا ریاست کا ایسا کردار قابل برداشت نہیں۔ دوسری جانب انسداد دہشتگردی کی عدالت نے محسن بیگ کے جسمانی ریمانڈ میں مزید دو روز کی توسیع کرتے ہوئے 23 فروری کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دےدیا۔ عدالت نے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے کہاکہ کیا اس ملک میں مارشل لا ءلگا ہوا ہے؟ کیوں نہ پیکا ایکٹ کی سیکشن 21 ڈی کو ہی کالعدم کر دیا جائے۔

محسن بیگ کی دائر درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہاکہ ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈرز کے لیے مسلسل اختیارات کا غلط استعمال کر رہی ہے جس پر تشویش ہے۔ کسی جمہوری ملک میں کسی ایجنسی یا ریاست کا ایسا کردار قابل برداشت نہیں، ہتک عزت پرائیویٹ رائٹ ہے، پبلک رائٹ نہیں۔ ایف آئی اے کو روگ ایجنسی نہیں بننے دیں گے۔ایف آئی اے نے شکایت ملنے پر کوئی نوٹس جاری کیوں نہیں کیا؟ کیا انکوائری کے بغیر چھاپہ اس لیے مارا کہ شکایت وفاقی وزیر کی تھی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹاک شو ٹیلی ویژن پر ہوا تو پھر پیکا ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ جب وہ ٹاک شو فیس بک ، ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو شکائت پر کارروائی کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ملزم نے وہ کلپ سوشل میڈیا پر وائرل کیا؟اس پروگرام میں کتنے لوگ تھے؟ کیا سب نے وہی بات کی تو باقی تینوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے مراد سعید سے متعلق محسن بیگ کا جملہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اس جملے میں کتاب کا حوالہ توہین آمیز ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کی ساکھ اختیارات کے غلط استعمال سے نہیں بچتی،یہ عدالت اختیار کے غلط استعمال کی اجازت نہیں دے گی۔ یہ عام شکایت ہوتی تب بھی گرفتاری نہیں بنتی تھی، یہ توپبلک آفس ہولڈر کی شکایت ہے، یہ ایک دھمکی ہے کہ اظہار رائے کی کوئی آزادی نہیں، عدالت یہ برداشت نہیں کرے گی۔

چیف جسٹس نے کہاکہ صحافیوں کے لیے غیر محفوظ ممالک میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے۔ یہ اسی وجہ سے ہے کہ اختیارات کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ کیا آپ اس معاشرے کو پتھر کے زمانے میں لے جانا چاہتے ہیں؟ملزم نے چھاپے کے وقت جو کیا وہ الگ معاملہ ہے جو مجاز عدالت دیکھے گی۔ سردار لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ وفاقی وزیر کی شکائت پر یہ کارروائی ہوئی تو وزیراعظم نے ایک میٹنگ بلائی۔ ایڈووکیٹ جنرل نے خود کہا کہ جج کے خلاف ریفرنس لا رہے ہیں ۔چیف جسٹس نے کہا کسی جج کو دھمکایا نہیں جا سکتا،عدالت نے محسن بیگ کی لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر مقدمہ اخراج کی درخواست خارج کر دی ۔ چیف جسٹس نےکہاکہ ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبرکرائم ونگ بیان حلفی جمع کرائیں کہ کیوں نا ان کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال پر کارروائی کی جائے؟ اٹارنی جنرل بھی 24 فروری کو پیش ہو کر ایف آئی اے ڈائریکٹر کادفاع کریں۔

Comments are closed.