صدارتی ریفرنس پرسماعت، لاجر بینچ میں شامل ججز کے اہم ریمارکس

 اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں گی،، تمام جماعتیں جمہوری اقدار کی پاسداری کریں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 95 کے تحت ہر رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے اور ووٹ اگر ڈل سکتا ہے تو شمار بھی ہو سکتا ہے، اگر اس نقطہ سے متفق ہیں تو صدارتی ریفرنس سے یہ سوال کو واپس لے لیں ۔

سماعت کے موقع پر جے یو آئی کے وکیل نے کہا کہ ہمارا جلسہ اور دھرنا پرامن ہوگا، چیف جسٹس بو لے آپ سے حکومت والے ڈرتے ہ ہیں جس پراس آبزرویشن پر عدالت میں قہقہہ لگا۔ اٹارنی جنرل بولے کہ جے یو آئی پر امن رہے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دئیے ، پی ٹی آئی کی جانب سے ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس بنانا افسوس ناک ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جے یو آئی بھی اپنے ڈنڈے تیل سے نکالے ۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں گی،، تمام جماعتیں جمہوری اقدار کی پاسداری کریں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 95 کے تحت ہر رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے اور ووٹ اگر ڈل سکتا ہے تو شمار بھی ہو سکتا ہے، اگر اس نقطہ سے متفق ہیں تو صدارتی ریفرنس سے یہ سوال کو واپس لے لیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے سیاسی اور قانونی محرکات الگ ہیں، سیاسی اثر تو یہ ہے کہ رکن کو دوبارہ ٹکٹ نہیں ملے گا، دوسری کشتی میں چھلانگ لگانے والے کو سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، کیا کسی رکن کو پارٹی کے خلاف فیصلے کے اظہار کا حق ہے؟جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ووٹ کا حق اراکین اسمبلی کو ہے نہ کہ پارٹی اراکین کو، کیا اراکین پارٹی کیساتھ اپنے حلقوں کو جوابدہ نہیں ؟پارٹی ڈسپلن کی پابندی کس کس حد تک ہے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چار مواقعوں پر اراکین اسمبلی کا پارٹی ڈسپلن کی پابندی کرنا لازم ہے، کیا دوسری کشتی میں چھلانگ لگا کر حکومت گرائی جاسکتی ہے، زیادہ تر جمہوری حکومتیں چند ووٹوں کی برتری سے قائم ہوتی ہیں، پنڈورا باکس کھل گیا تو میوزیکل چئیر ہی چلتی رہے گی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ سیاسی جماعتیں ادارے ہیں،پارٹی لائن کی پابندی نہ ہو تو سیاسی جماعت تباہ ہو جائے گی، آئین میں پارٹی سربراہ نہیں پارلیمانی پارٹی کو بااختیار بنایا گیا ہے، پارٹی کی مجموعی رائے انفرادی رائے سے بالاتر ہوتی ہے، پارٹی پالیسی سے انحراف روکنے کے لیے آرٹیکل ٹریسٹھ اے شامل کیا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ پارٹی لیڈر کو بادشاہ سلامت بنانا چاہتے ہیں؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کسی کو بادشاہ نہیں تو لوٹا بھی نہیں بنانا چاہتے، مغرب کے بعض ممالک میں فلور کراسنگ کی اجازت ہے۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جتنا مرضی غصہ ہو پارٹی کیساتھ کھڑے رہنا چاہیے، مغرب میں بھی لوگ پارٹی کے اندر ہی غصے کا اظہار کرتے ہیں، ووٹ ڈال کر شمار نہ کیا جانا تو توہین آمیز ہے، آرٹیکل تریسٹھ اے میں نااہلی کا پورا نظام دیا گیا ہے، اصل سوال اب صرف نااہلی کی مدت کا ہے، ایسے معاملات ریفرنس کی بجائے پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف پر تاحیات نااہلی ہونی چاہیے، یہ ضمیر کی آواز نہیں کہ اپوزیشن کیساتھ مل جائیں۔

Comments are closed.