قومی اسمبلی تحلیل کیس: کوئی بھی ریاستی عہدیدار غیرآئینی اقدام نہ کرے، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی اسمبلی تحلیل کیے جانے اور اسپیکر کی متنازع رولنگ کے بعد پیدا صورتحال کے پیش نظر ریاستی اداروں کو کسی بھی غیر آئینی اقدام سے روک دیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے صدارتی حکم اور اسپیکر کی ’متنازع‘ رولنگ کے پیش نظر ازخود نوٹس کی اتوار کے روز سماعت کی ۔ بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل تھے، سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ ریاستی عہدیدار اور ادارے کوئی بھی ماورائے آئین اقدام نہ کریں۔

سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ملک کی موجودہ صورتحال میں عدالت نے مناسب سمجھا ہے کہ معاملہ کا نوٹس لیں، کیس کو صرف کل کے لیے ملتوی کر رہے ہیں، جائزہ لیں گے کہ ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے دی گئی رولنگ کی کیا حیثیت ہوگی۔اس ضمن میں آئین کے آرٹیکل 5 میں دی گئی پابندی کا مکمل علم ہے، عدم اعتماد میں شامل تمام سیاسی جماعتیں اور ریاستی ادارے امن وامان برقرار رکھیں۔

سپریم کورٹ نے سیکریٹری داخلہ کو امن وامان برقرار رکھنے کے لیے کئے گئے اقدامات بارے آگاہ کرنے کی ہدایت کی اور ریماکس دیے کہ کوئی بھی موجودہ صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔پیپلز پارٹی کی جانب سے صدراتی حکم اور  ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ معطل کرنے کی استدعا پر سپریم کورٹ نے متفرق درخواستوں پر تمام فریقین کو نوٹسز جاری کردیے اور درخواستوں کو نمبر لگانے کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ صرف قانون پر بات ہوگی اور قانون پر ہی فیصلہ جاری کیا جائے گا، وزیراعظم یا صدر کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔ عدالت عظمیٰ نے سیکریٹری داخلہ اور دفاع کو بھی نوٹسز جاری کردیے جبکہ سپریم کورٹ نے سیاسی حالات پر لیے گئے ازخودنوٹس پر لارجر بینچ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد 4 اپریل کو ہونے والی سماعت پانچ رکنی لارجر بینچ کرے گا۔

Comments are closed.