گلگت بلتستان: شیشپرگلیشیئرجھیل پھٹنے کے بعد سیلابی صورتحال،حسن آباد پل بہہ گیا

گلگت بلتستان میں شیشپر گلیشیئر پر بننے والی جھیل پھٹنے کے بعد سیلابی صورتحال کے باعث گلگت اور ہنزہ کو آپس میں ملانے والاحسن آباد پل سیلابی ریلے میں بہہ گیا جس کے بعد شاہراہ قراقرم ٹریفک کے لیے بند ہو چکی ہے۔

جھیل نے ہفتے کے روز صبح سات بجے سیلابی پانی کی شکل اختیار کی جس کے بعد پانچ ہزار کیوسک پانی نکلنا شروع ہوا تھا۔ حسن آباد پل سے چھ ہزار کیوسک پانی گزر رہا ہے۔حکام کے مطابق پانی کا یہ ریلہ شام تک گزر جائے گا یا کم ہو جائے گا جس کے بعد بحالی کے کاموں کا آغاز ہو سکے گا۔ انتظامیہ کے مطابق خطرے کا شکار مقامی آبادیوں کو پہلے ہی سے وہاں سے منتقل کیا جا چکا تھا۔ مقامی آبادیوں کو کسی قسم کے خطرے کا سامنا نہیں ہے۔

بین الاقوامی ادارے مرکز برائے مربوط تربیتی پہاڑی علاقہ جات (آئی سی آئی ایم او ڈی) کے مطابق گرمی کی شدت میں اضافے کی وجہ سے گلیشیئرز زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ان میں تیزی سے نہ صرف گلیشیئر جھیلیں بن رہی ہیں بلکہ وہ اپنے معمول کے وقت سے پہلے نمودار ہونے کے علاوہ پھٹ کر سیلاب کی بھی شکل اختیار کر رہی ہیں۔

آئی سی آئی ایم او ڈی سے منسلک گلیشیئر کے ماہر ڈاکٹر شیر محمد کے مطابق جھیل بہت بڑے علاقے پر بنی ہوئی ہے۔ ’ہم نے سیٹلائیٹ کے ذریعے سے جو معلومات حاصل کی ہیں اس کے مطابق اس کا سائز 0.4 مربع کلومیڑ ہے جو کہ 320 اولپمک معیار کے سوئمنک پولز کے برابر ہے۔

ڈاکٹر شیر محمد کے مطابق گذشتہ برسوں میں اس کا سائز 0.34 مربع کلومیڑ تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس سال گرمی کی وجہ سے جھیل کا نہ صرف سائز بڑھا اور اس نے سیلابی پانی کی بھی شکل اختیار کرلی ہے۔ ڈاکٹر شیر محمد کے مطابق جھیل کا سائز اس سال گزشتہ برسوں کے مقابلے میں پندرہ اپریل سے لے کر پانچ مئی تک چالیس فیصد بڑھا ہے اور اس کی وجہ اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہے۔ گرمی کی شدت میں اضافے کی وجہ سے گلیشیئرز زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ان میں تیزی سے نہ صرف گلیشیئر جھیلیں بن رہی ہیں بلکہ وہ اپنے معمول کے وقت سے پہلے نمودار ہونے کے علاوہ پھٹ کر سیلاب کی بھی شکل اختیار کر رہی ہیں۔

واضح رہے کہ محکمہ موسمیات پاکستان کے مطابق اس برس اپریل کا ماہ سنہ 1961 کے بعد سب سے گرم ترین ماہ رہا۔ مارچ اور اپریل کے ماہ اوسط سے تقریباً پانچ ڈگری زیادہ گرم رہے۔ ماہرین ماحولیات اوسط سے پانچ ڈگری زیادہ رہنے کو انتہائی بڑا خطرہ سمجھ رہے ہیں۔

آئی سی آئی ایم او ڈی سے منسلک گلیشیئر کے ماہر ڈاکٹر شیر محمد کے مطابق ان کی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ اپریل کے ماہ میں کم از کم پانچ گلیشیئرز پر جھیلیں وقت سے پہلے نمودار ہوئیں بلکہ کچھ پھٹ بھی چکی ہیں اور ان میں معمول سے زیادہ پانی چل رہا ہے،ہم مسلسل بادلوں کی وجہ سے صرف پانچ گلیئشائی جھیلوں ہی کو ریکارڈ کر سکے ہیں جس میں اضافہ چل رہا ہے مگر ممکنہ طور پر یہ تعداد کافی زیادہ ہو سکتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان پانچ گلیشیئرزجھیلوں کی سیٹلائیٹ سے حاصل کردہ رپورٹس اور تصاویر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ علاقے میں موجود دیگر گلیشیئرز جھیلوں کو بھی حطرات لاحق ہو سکتے ہیں،ع

موماً اپریل کے ماہ میں اس طرح نہیں ہوتا اور گلیشیئرز جھیلیں نمودار ہونے کے واقعات جون کے مہینے یا اس کے بعد ریکارڈ کیے جاتے ہیں مگر معمول سے پانچ ڈگری زیادہ درجہ حرارت ممکنہ طور پر کئی قدرتی آفات پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

2500 سے زائد گلیشیئر جھیلیں

ڈاکٹر شیر محمد کے مطابق ایک اندازے کے مطابق گلگت بلتستان میں کوئی 2500 سے زائد گلیشیئر جھیلیں موجود ہیں۔ قراقرم میں 19ویں صدی کے وسط سے لے کر اب تک ہندو کش قراقرم کے علاقے میں 370 جھیلوں کے پھٹنے اور سیلابی شکل اختیار کرنے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے پورے علاقے میں جھیلیں پھٹنے اور سیلابی ریلے بننے کے 170 واقعات ریکارڈ ہوئے، جس میں سے 64 واقعات سنہ 1970 کے بعد ہوئے۔ان میں سے خردوپین اور کیگر گلیشیئر سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہیں۔ ان دونوں کی وجہ سے ہونے والے ایسے واقعات کا تناسب کوئی 32 فیصد ہے۔

خالد سلیم کہتے ہیں کہ گلوف ٹو پراجیکٹ کے تحت ایسے کوئی 16 مقامات کی نشاندہی ہوئی ہے، جن کو مکمل طور پر خطرے کا شکار کہا جا سکتا ہے۔ ان 16 میں سے آٹھ پر مختلف پراجیکٹ شروع کر دیے گئے ہیں۔ باقی آٹھ مقامات پر جلد ہی ایسے پراجیکٹ شروع کر دیے جائیں گے۔ ڈاکٹر شیر محمد کے مطابق بڑھتی ہوئی گرمی کے سبب گلیشیشئر کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہو گئی۔

بشکریہ : بی بی سی اردو

Comments are closed.