ہم کوئی غلام ہیں کیا؟ عمران خان صاحب کا قول اور بارسلونا کی دعوتیں
تحریر: ڈاکٹر انعام حسین شاہ بارسلونا
خان صاحب کے چاہنے والوں سبھی نے ان دنوں ایک سلوگن بڑی دھوم دھام سے اپنے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر لگایا تھا #ہم_کوئی_غلام_ہیں_کیا؟ اور بات اصولی بھی ہے، کیونکہ آزادی بہرحال غلامی سے لاکھ درجہ بہتر ہے. مگر سوال یہ ہے، کہ ہم اپنی آزادی کو اہمیت بھی دیتے ہیں؟ یا پھر مروت دید لحاظ کے نام پر غلامانہ انداز اختیار رکھنا جاری رکھتے ہیں؟
گزشتہ روز بارسلونا کے ایک کامیاب ترین شخصیت کے توسط سے دعوت نامہ موصول ہوا جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان سے نائلہ خان اور فخر عالم شوکت خانم میموریل ہسپتال پر بریفنگ دینے آ رہے ہیں. پیغام کے مطابق شام آٹھ بجے ایک مقامی ریسٹورانٹ میں تقریب منعقد کی گئی تھی.
اب کیونکہ دعوت نامہ میں جس شخصیت کا حوالہ دیا گیا تھا، ان سے ایک انسیت کا رشتہ بھی قائم ہے لہٰذا قطع نظر اس سے کہ میں خود ائیرپورٹ پر آجکل جاب کر رہا ہوں اور الصبح اٹھنا ہوتا ہے، لیکن دید لحاظ بھی کوئی چیز ہوتی ہے، اس واسطہ پروگرام میں جانے کی حامی بھر لی. پروگرام کے مطابق ٹھیک سات بج کر پچپن منٹ پر مقررہ ریسٹورانٹ کے سامنے پہنچ گیا. ایک دو اصحاب سے ملاقات ہوئی، پھر آہستہ آہستہ مزید اصحاب آتے گئے لیکن میزبان ندارد. سخت کوفت محسوس ہو رہی تھی اور ڈیڑھ گھنٹہ کے انتظار کے بعد دو گاڑیوں میں میزبان اور مہمانان خصوصی آ گئے.
آٹھ بجے کا دعوت نامہ بھیج کر میزبان خود ساڑھے نو بجے پہنچے اور ساتھ میں ان مہمانوں کے جن کے اعزاز میں یہ دعوت رکھی گئی ہو، تو یورپ کے رسم و رواج کے مطابق یہ حاضرین محفل کی عام بے عزتی نہیں بلکہ یہ اچھی خاصی بے عزتی ہوتی ہے. لیکن حاضرین جب پاکستانی ہوں تو وہ بے عزتی شائد محسوس نہیں کرتے یا پھر اپنی بے عزتی درگزر کر دیتے ہیں؟ وللہ عالم. اور کچھ کیا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ شائد پاکستانیوں کے لئے یہ بے عزتی ہوتی ہی نا ہو؟ تاہم، اب مجھے اسپین کی کمیونٹی میں مکمل اضمام حاصل ہے اور ان کے خواص تک رسائی بھی حاصل ہے تو شائد میں نے اس بے عزتی کو بہت زیادہ محسوس کیا اور محفل سے عمران خان صاحب کے قول پر عمل کرتے ہوئے رخصت ہو گیا کہ “ہم کوئی غلام ہیں کیا؟”
میرے بہت ہی محترم قارئین، یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اپنا وقار بلند رکھتے ہیں یا ہم دید مروت کے نام پر اپنی عزت نفس ختم کر دیتے ہیں. جب میزبان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ آپ مروت دید لحاظ کے نام پر اپنی عزت نفس بحال نہیں رکھ سکیں گے تو حاضرین کی اس طرح اجتمائی بے عزتی ہونا رواج پا جاتا ہے جس طرح یہ پاکستانی کمیونٹی میں اب رائج ہے. لیکن پھر بھی یہی دہراؤں گا کہ یہ آپ کے ہاتھ میں ہے. کسی نہ کسی نے تو آغاز کرنا ہوتا ہے کسی گھٹیا ریت رواج کو تبدیل کرنے کا سو آج میں نے کر دیا ہے کیونکہ “ہم کوئی غلام ہیں کیا؟”
Comments are closed.