بارسلونا صوبہ کاتالونیا کا صدر مقام ہے۔ یہ ایک ساحلی شہر ہے اور سارا سال، سوائے اُن لمحات کے جب وہ قیلولہ کرنے یا لگاتار چل چل کر سستانے کے لیے رُکتی ہیں، بارسلونا اُن ہلکی ہواؤں کی زد میں رہتا ہ

ڈاکٹر عرفان مجید راجہ سائر بارسلونا

زمانہ طالب علمی میں سن ۱۹۹۸ سے بارسلونا آنا جانا شروع ہوا۔ رومانیہ کے شہر اورادیا سے باہر پہلی میڈیکل آبزورشپ بطور طالب علم بارسلونا کے کرُوژ روخا ہسپتال کے شعبہ امراضِ دل میں کی۔ کرُوژ روخا (Cruz Roja) ہسپانوی زبان میں ریڈ کراس کو کہتے ہیں جو ہمارے ہاں دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ہلالِ احمر کہلاتا ہے۔ یہی ہسپتال 2002 عیسوی میں جنرل ہسپتال ہوسپتالیت کے نام سے موسوم ہوا مگر پرانے ہسپانوی لوگ جب تک زندہ ہیں یہ کرُوروخا (ژ کھا جاتے ہیں) اور پرانے دیسی ہسپتال کو کرُوروخے یا کرُوروخیوں کہتے رہیں گے۔ بارسلونا میں مُستقل اقامت اختیار کرنے سے پہلے میرا کام وہی ہوا کرتا جو کسی ندیدے سیاح کا ہو سکتا ہے یعنی گھومنا پھرنا، گلیوں کے نام، میٹرو اور بسوں کے سٹاپ اور نقشے یاد رکھنا، کھانا پینا اور رستہ بھول جانا۔ بس یہی کُچھ کرتے ایک ڈیڑھ ماہ گُزر جایا کرتا اور رومانیا میں جامعہ اورادیا کی فیکلٹی آف میڈیسن کو واپسی ہو جایا کرتی۔

طِب کی ابتدائی تعلیم ختم کرنے کے بعد برطانیہ چلا گیا، وہاں سے پاکستان اور وطنِ عزیز میں ہاؤس جاب کی سختیاں بغیر تنخواہ کے برداشت کرنے کے بعد حوصلہ جواب دے گیا اور طبی حیات کے بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑانے، تلاطم خیز تربیتی نظام سے ٹکرانے اور جم کر حالات کا مقابلہ کرنے کا نعرہ ایک طرف رکھ کر میں نے سنجیدگی سے وطن عزیز سے نکلنے کا سوچنا شروع کر دیا۔

 ڈاکٹر عطا اللہ جمال کے مطابق میں تمام تر صلاحیت برُوئے کار لا کر بھی وہ کُچھ نہیں پا سکتا تھا جس کی مُجھے تمنا تھی۔ سرجیکل یونٹ ۴ کے رجسٹرار چوہدری آصف محمود کو مُجھ سے کافی توقعات وابستہ تھیں۔ پروفیسر عرفان مرزا خاک سائر کے طبی مُرشد ہیں، حیات ہیں اور سعودیہ میں مقیم ہیں۔ وہ اُن دِنوں سروسز ہسپتال، جیل روڈ لاہور میں شعبہ امراض اطفال کے سرجیکل ڈپارٹمنٹ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر تھے۔ اُنہی کی نظرِ کرم نے فیصلہ پر قائم ہونے کی طاقت دی اور میں شاداں و فرحاں لاہور کی جولائی کی سخت گرمی چھوڑ کر سن ۲۰۰۷ کے ساتویں ماہ کی سات تاریخ کو عازمِ سفر ہوا۔ بارسلونا پہنچا تو یہاں درجہ حرارت لاہور سے دس درجہ کم تھا اور ۳۶ ڈگری سینٹی گریڈ محسوس چھیالیس نہیں ہوتا تھا۔

بارسلونا صوبہ کاتالونیا کا صدر مقام ہے۔ یہ ایک ساحلی شہر ہے اور سارا سال، سوائے اُن لمحات کے جب وہ قیلولہ کرنے یا لگاتار چل چل کر سستانے کے لیے رُکتی ہیں، بارسلونا اُن ہلکی ہواؤں کی زد میں رہتا ہے۔

ابتدائی ایام کاغذات وغیرہ پورا کرنے میں گُزر گئے اور سستاتے، اُٹھتے بیٹھتے جب بوریت اور وزن حد سے بڑھنے لگے تو برادر بزرگ راجہ عمران مجید سے عرضُ کیا کہ کُچھ میری تعلیم کے مطابق راستہ تلاش کرنے کی سعی کریں۔

یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے راجہ عمران مجید کا ہلکا سا تعارف کروا دیا جائے۔ آپ میرے جُڑواں بھائی ہیں۔ بھائی صاحب “ڈاکٹر کی تعلیم مکمل ہو جائے” کی نیت کر کے پاکستان سے نکلے۔ بارسلونا، اُندلس، پائیس باسکو اور پھر بارسلونا میں کمر، ہڈی اور پٹھے توڑ محنت کر کے مجھے سہارا دیا۔ اُن کے ہسپانیہ آنے کے کُچھ سال بعد ہمارے برادرِ خُرد راجہ رضوان مجید بھی بارسلونا آ گئے اور اُنہوں نے اپنے دن رات بھائی صاحب کے ساتھ وقف کر دیے۔ ابا جان مسقط آف اومان سے ریٹائرمنٹ لے کر پاکستان استقامت اختیار کر چُکے تھے۔ سارے خاندان کا زور لگا تب جا کر ۲۰۰۳ میں ایک ڈاکٹر تیار ہوا۔ خاک سائر آج جو کُچھ بھی ہے انہی کی مرہون ہے۔ اولاد کو پڑھاتے باپ کا پِتا پانی ہو جاتا ہے مگر میرے لیے میرے بھائیوں نے دل، جگر نچوڑ کر مجھے اُس وقت تک چلایا جب تک میں خود کمانے کے لائق نہ ہو گیا مگر اس قسم کی لائقی آتے آتے عُمر کی بتیس رسیدیں کٹ چُکی تھیں۔

واپس ملاقات کی طرف چلتے ہیں جو بھائی صاحب نے ایک ہفتہ کی سہ پہر بارسلونا کی ایک معروف شخصیت سے طے کر رکھی تھی۔ بھائی صاحب کے مطابق وہ بارسلونا کی سب سے زیادہ معلومات رکھنے والی ہستی تھے۔ مُجھے ساتھ لیے پرات سے یوبریگات میں واقع ایک ڈونر بار کے باہر وقتِ مقررہ پر پہنچ گئے۔ چند لمحات پر مُحیط مختصر مگر جامع اور مُفصل مُلاقات شروع ہوئی۔ میں ڈگریاں سبز فائل میں رکھے، فائل ہاتھ میں پکڑے معروف صاحبِ معلومات کے سوالات کا جواب دیتا رہا۔ جوابات کی نزاکت بھانپتے ہوئے اُنہوں نے ٹکا سا جواب دیا “میڈیکل کی فیلڈ میں تو ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے”۔ میرے لیے جھٹکا یہ تھا کہ یہ سب بھائی جان کو فون پر پتہ چل سکتا تھا۔ کہ مُجھے چڑھی دوپہر سانتا کولوما دے گرامینیت (Santa Coloma de Gramenet) سے لیا، بیس کلومیٹر گاڑی چلائی، سارا رستہ ہم پاک سلونا ریڈیو کی نشریات سُنتے ایل پرات پہنچے اور پایا کیا؟ “کُچھ کھا پی لو اور اِس کام کے علاوہ ہم حاضر ہیں”۔ میں نے بھائی صاحب کو خوب گھورنے پر اکتفا کیا اور پھر ہم واپس گھر کو چل دیے۔ واپس آتے راستے میں مَیں یہ طے کر چُکا تھا کہ کسی “پُرانے” اعلیٰ معلومات یافتہ سے کم از کم اپنے شعبے کے بارے میں مدد، معلومات یا تسلی مانگنے جیسا مخول اپنے ساتھ نہیں کرنا۔ مزید یہ کہ اگر کسی کو اپنے کام دھندے سے باہر بُلا کر اپنی بات سُنانے کو من کر ہی جائے تو بجائے چند منٹ کے چند گھنٹے مانگ کر، مختصر قیام، جامع طعام و بے تکلف چائے کے بعد اگلے کی جان بخشی کی جائے۔ یہ “زرّیں اُصول” وضع کرتے ہم گھر پہنچے۔ خدا شاہد ہے خاک سائر آج تک اپنے اُصول پر قائم ہے اور جُز قریبی حلقہِ احباب کے اس قسم کی مخولیہ ملاقات کی نوبت کبھی نہیں آئی۔طب ہی نہیں، ادب اور سماجیات سمیت میں نے کسی قسم کی تہ یا بالا دستی اور ہستی کو قبول نہیں کیا اور پھر گزشتہ تین ماہ کم سولا سال میں کئی موسم گُزر گئے مُجھ پر (۱)۔

ستمبر ۲۰۰۷ء کے پہلے تین ہفتے میں نے یہی جاننے میں گزارے کہ اپنی تعلیمی اسناد کی ہسپانیہ میں قبولیت کیسے حاصل کی جائے تا کہ جو کِیڑا طب کے چھ سال اپنے ارد گرد ریشم (۲)بُنتا تمام موسم برداشت کر چُکا تھا اُس کے دارِ فانی سے کوچ کرنے سے قبل کم از کم بُنی گئی ریشم کا کُچھ انتظام کر لیا جائے۔

یہاں کوئی تنظیم یا ہستی ایسی نہیں تھی جس کا بالواسطہ سہی علم کی تحصیل سے کوئی دور پار کا ناطہ ہو اور جو تھیں اُن کے کرتا دھرتا آدھے اپنے آپ کو دامے درمے سُخنے منوانے میں اُلجھے ہوئے تھے اور آدھے یہ گُل کِس نے کھلایا جیسے غیر معمولی معاملات پر آپس میں گُتھم گُتھا تھے۔ اگر ان دونوں آدھوں سے کوئی ایک آدھ دانا بچ رہا تھا تو وہ دونوں کے درمیان پُل صراط کا کام کرتا تھا سو اُس کے وارے نیارے، راتیں شب براتیں اور دھار تیز ہوا کرتی۔

کمیونٹی ایسی چھوٹی نہیں رہی تھی اور روز بروز بڑھوتری کی طرف مائل تھی۔ ۱۹۹۸ تا ۲۰۰۳ والے حالات نہیں تھے جب پاکستانیوں کی اکثرّیت پریشان حال ہوا کرتی۔ اب حالات سنبھل رہے تھے، جا بجا کام دھندے کُھل رہے تھے، بجلی، رنگ روغن اور تعمیرات میں پاکستانی قدم جما چُکے تھے۔ چھوٹے موٹے سرکاری، نیم سرکاری، پرائیویٹ اداروں اور فیکٹریوں میں کام کر رہے تھے اور جس سے پوچھو وہ یہی جواب دیتا تھا کہ کام بہت ہے۔ تعلیم کی طرف رُجحان بچوں کی حد تک تھا کیوں کہ ابھی خاندان کم اور چھڑے زیادہ تھے جن کا مقصدِ حیات کاغذات لے کر لیگل ہونا، معاشی استحکام حاصل کرنا اور وطنِ عزیز میں اپنے خاندانوں کی کفالت کرنا تھا۔

ستمبر ۲۰۰۷ کے آخری ہفتہ میں دو کام شروع ہوئے۔

پہلا یہ کہ میں نے وزارتِ سائنس کے بارسلونا کے دفتر میں اپنی اسناد جمع کروائیں تاکہ ہسپانوی نظام میں بطور طبیب کام کرنے کی باقاعدہ اجازت مل جائے اور دوسرا کام کم اور خبر زیادہ تھی کہ ہسپانیہ میں معاشی بحران کی آمد آمد تھی۔

جاری ہے۔۔۔

(۱) جناب اظہار الحق کی کُلیات “کئی موسم گُزر گئے مُجھ پر

(۲) جناب علی اکبر ناطق کی نظم “ریشم بُننا کھیل نہیں”

Comments are closed.