ہسپانوی زبان پاکستانیوں کی سپانش، منجوئیک کا میدان کبڈی اور کرکٹ
ڈاکٹر راجہ عرفان مجید سائر کے ہسپانیہ نامہ کی چوتھی قسط دشتِ گُماں اور حرکتِ روز و شب (۳)
ہسپانوی زبان کو ہمارے اچھے بھلے پڑھے لکھے اسپانش لکھتے اور سادہ پڑھے لکھے الف کھا کر سپانش بولتے ہیں۔ ہسپانوی بڑی زبان ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ بابائے ناول حضرت سروانتیس (Miguel de Cervantes Saavedra) کی زبان ہے۔ سروانتیس دون کیخوتے دے لا مانچا (El ingenioso hidalgo don Quijote de la Mancha) جیسے شہرہ آفاق ناول کے خالق ہیں اور اِس ناول کا دُنیا کی لگ بھگ 140 زبانوں میں ترجمہ ہو چُکا ہے۔
دراسانیس سکول بارسلونا میں لسانیات کا معتبر ترین ادارہ ہے۔ میں زبان سیکھنے صبح نو تا دن بارا بجے وہاں ہوا کرتا۔ فراغت پاتے ہی “جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے” بارسلونا مرکز گھومتا، کولمبس کی یادگار سے ہوتا ہوا وہاں نصب آٹھوں شیر گِنتا ماری میگنم پر جا نکلتا اور وہاں سمندر کا لُطف لیتا تو کبھی قدیم بارسلونا شہر کے محلے گوتھک میں جا نکلتا۔
گوتھک گاؤں
آڑے تِرچھے
منزل منزل
کوٹھوں والا
کُوچے اِس کے
پتھر کے ہیں
بام و در پر
سنگِ مرمر
نیلے پیلے
چوباروں پر
چھجے قدیم
گُنبد اِس کے
ایل راوال
اِس اور ہے تو
بحرِ احمر
ہے دُوجی اور
گوتھک کا دل
بسبے کا پُل
گوتھک گرجا
صوفی کُوچا
جس کے پیچھے
قریہ کائی
جس کے رستے
ہنستے بستے
چوراہوں میں
جا کُھلتے ہیں
میں نے سُپر مارکیٹس میں جا کر سبزیوں، پھلوں، اشیائے خور و نوش، مشروبات سمیت شرابوں کی قسمیں اور قیمتیں سب کچھ ہسپانوی اور کاتالان میں الگ الگ سیکھا۔ جب ہسپانوی میں زبان رواں ہوئی تو میں نے مُناسب سمجھا کہ باکل ویسے ہی جیسے اماں جی ہمارے بچپن میں دال کو دُھونی/ تڑکا لگاتی تھیں، ہم بھی اپنی ہسپانوی کو کاتالان کا تڑکا لگائیں چناں چہ میں صبح ہسپانوی بارسلونا مرکز میں اور سہ پہر میں کاتالان سیکھنے لگا۔
ادارہ برائے فروغِ کاتالان زبان، بادالونا نے مُجھے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ بادالونا کی مرکزی لائبریری کے لسانیات کے حصے میں ہمیں کاتالان پڑھائی جاتی۔ وہ وقت بھی آیا جب کاتالان کے تڑکے نے ہسپانوی میں رنگ جمانا چاہا۔ ہوا یوں کہ میرا درجہ چہارم (بی۔ٹو) کا امتحان تھا اور زبان سے الفاظ کاتالان کے ادا ہو رہے تھے۔ میں باوجود کوشش کے قابو نہیں پا رہا تھا مگر میری ممتحن نے یہ کہہ کر کہ میری ہمت بندھائی “اب تُم کاتالان ہسپانوی بننے جا رہے ہو”۔ میرے طبیب ہونے نے مُجھے ہمیشہ فائدہ پہنچایا اور ہسپانوی اُساتذہ نے بھی مُجھے زبانیں سکھانے میں عام طلبہ کی نسبت زیادہ مدد کی کہ کسی طرح میں نظام کا حصہ بن جاؤں۔
چہل قدمی کا شوق ہوتا تو دراسانیس سکول سے نکل کر مونت جوئیک کی طرف نکل جاتا۔ اولمپکس سٹیڈیمز ، چئر لفٹ، بیس بال گراؤنڈز سے ہوتا ہوا، مونت جوئیک عجائب گھر کے سامنے سے سیڑھیاں اُترتا، جادُوئی فواروں کے پاس سے گُزرتا پلاسا ہسپانیہ پہنچ کر میٹرو پکڑ کر گھر واپس آ جاتا۔
دونوں سکولوں نے مُجھے بال ترتیب بارسلونا اور بادالونا کی سڑکیں ماپنے اور گلی گلی پھرنے میں یدِ طُولیٰ عطا کر دیا تھا۔ میرے خیال میں پیدل بارسلونا مرکز کا مٹر گشت جتنا میں نے کیا ہے اور جتنا شہر کی گلیوں کی نشانیاں اور نام یاد کیے اور اُس ڈوبنے اور نِکلنے کی برکت سے مرکز کا ہر کونا کُھدرا مجھے ازبر ہو جانا چاہیے تھا مگر کیا کیجیے آج بھی مُجھے بارسلونا مرکز میں سمت یاد نہیں رہتی اور بُھولنا تو خیر عادتِ حسنہ ہے یعنی اغیار سے گِلہ کیا کیجیے کہ مُجھے خود اِس عادت پر ہنسنا پڑتا ہے۔
اوپر مونت جوئیک (Montjuic) کا ذکر آیا ہے تو اُس کے بارے میں مُختصراً عرض ہے کہ کاتالان زبان میں مونت پہاڑ کو کہتے ہیں اور جُوئیک بہ معنی یہودی کے ہیں۔ یہ ایک پہاڑ ہے جو اپنی اُوپر نیچے آڑھی ترچھی اور گھومتی بل کھاتی سڑکوں سے مونت جوئیک کے باغات، قلعوں، دو عجائب گھروں، دو ہوٹلوں اور ان گنت چھوٹے درمیانے پارکوں کے درمیان گھماتا کاتالونیہ کے شاہی محل (Palau real) کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ یہاں سے سر شام معروف جادوئی فواروں کا رقص دیکھا جا سکتا ہے۔ محل کے سامنے سیڑھیاں ہیں جن کے درمیان تہ در تہ آبشار بہتی ہے اور نچلی منزل پر چار ستون ہیں۔ یہ چار ستُون وہ چار لکیریں ہیں جو کاتالونیا کے جھنڈے پر کھنچی ہیں اور یہ چار لکیریں اُس کاتالان سُورما کی ہیں جو کسی جنگ میں لڑتے زخم کھا بیٹھا اور جیسا پرانے وقتوں میں ہوتا تھا کہ بادشاہ سُرماؤں سے ہر حال میں حلفِ وفاداری لیتے تھے سو اُس سُورما نے اپنی سُنہری تانبے کی ڈھال پر بادشاہ کو چار انگلیوں سے رستے خون کی لکیریں بنا کر دکھا دیں۔ تابنے کا رنگ، اُوپر چار سُرخ لکیریں کاتالونیا کا جھنڈا قرار پایا۔ کاتالان آزادی پسند جھنڈے پر ستارہ بھی رکھتے ہیں (۱۱)۔
اِن ستونوں سے آگے جادوئی فوارے ہیں اور سرِ شام ہزاروں لوگ اُن سے لُطف لیتے ہیں۔ کاتالان سُورما کی یادگار پر اِن جادوئی فواروں کا جادوئی رقص اور موسیقی اپنے اندر الگ معنیٰ رکھتی ہے۔ شہرہ آفاق فرانسیسی گلوکارہ سیلین ڈیون کے گیت فالِنگ اِن ٹو یُو کا ایک بول ہے کہ “ محبت خوف کے سائے میں کی جا سکتی ہے” سو کاتالان جھنڈے میں خوف کے سائے میں رومانویّت چھپی ہے۔
مونت جوئیک ہی کے بیس بال گراؤنڈ میں پاکستانی کبڈی میلہ منعقد ہوا کرتا تھا۔ یہی وہ گراؤنڈ ہے جہاں کاتالان کرکٹ فیڈیریشن جِس کے باگ دوڑ مکمل طور پر پاکستانیوں کے ہاتھ ہے، پھلی پھولی۔ مونت جوئیک کے گراؤنڈز اور بڑے بڑے ہالوں میں عید کے اجتماع ہوا کرتے اور اسی مونت جوئیک کے مرکزی ہال میں پاکستان کے عالم اور مُبلغ مولانا طارق جمیل جیسی ہستیاں خطاب کر چُکی ہیں۔ مونت جوئیک کے باغات کُشادہ، ہرے بھرے اور رنگین ہیں۔ یہاں چلنے، دوڑنے، بیٹھنے، لیٹنے اور لپٹنے والے، کبوتر، بگلے، راج ہنس اور گُلہری جا بجا ملتے ہیں۔ کُچھ دیواریں ہیں جِن کی اوٹ میں وہ چھوٹے چھوٹے تھڑے ہیں جہاں ملنگ سُوٹا پانی کی واری لگاتے ہیں اور اُن میں دیسی بدیسی سبھی شامل ہیں۔ یہیں دو چئرلفٹس اور کیبل کار کے سٹیشن ہیں جو قلعہ مونت جوئیک اور سمندر کے اوپر سے ہوتے ہوئے ورلڈ ٹریڈ سنٹر تک آتی جاتی ہیں۔
میں نے ہسپانوی زبان سکول اور سکول سے باہر یوں سیکھی۔ ہسپانوی کی ایک کہاوت ہے کہ جو سر استعمال نہ کرے اُسے پیر استعمال کرنے پڑتے ہیں سو عزیزانِ من سر تو نامعلوم کتنا استعمال ہوا، پیر خاک سائر نے بہت استعمال کیے ہیں مگر وہ اُن پَیروں سے بہر حال کم ہیں جو کمیونٹی نے اوبرا (۱۲) میں استعمال کیے۔ جو لوگ پیر کم، دماغ اور آنکھیں زیادہ استعمال کرنا چاہتے تھے اُنھوں نے ٹیکسی سیکٹر کا انتخاب کیا اور جو دماغ اور پیر استعمال نہیں کرنا چاہتے تھے اُنہوں نے لوکوتوریوز بنا لیے جہاں ہاتھ اور آنکھیں زیادہ استعمال ہوتے تھے۔ ابھی وہ لوگ کم تھے جو دماغ، ہاتھ، پاؤں غرض ہر عضو استعمال کرنے کے حامی اور داعی تھے۔ آخری تجزیے میں ابتداً یہی تین سیکٹرز تھے جہاں پاکستانیوں نے مستقبل تلاشا اور بہت زیادہ کامیاب رہے پھر خدا جانے کیا ہوا کہ ہر کامیاب اوبریرو اور لوکوتوریو والا دُکاندار بنتا گیا۔ ہو سکتا ہے اُونچی دُکان پھیکا پکوان اور دُکان چمکانا جیسے محاورے وجہ بنے ہوں۔
(۱۱) بارسلونا کے معروف سوشل میڈیا بلاگر اور ایکٹیوسٹ سیّد شیراز کے مطابق نویں صدی عیسوی میں گیفرے ایل پیلوس (Guifré el Pilós/ Wilfred the Hairy) صوبہ بارسلونا کا حُکمران تھا۔ کاتالونیا مختلف علاقوں میں منقسم تھا اور ہر علاقے کا حکمران فرانسیسی قدیم کیرولنگین بادشاہوں سے وفاداری کے پابند تھا۔ مصنف و مورخ انتونی بیوٹر 1551 عیسوی میں اپنی کتاب تاریخِ ہسپانیہ میں لکھتے ہیں کہ فرانسیسی بادشاہ چارلس دی بلاڈ نے “Vikings” جنہیں مقامی زبان میں (Normandos) کہا جاتا تھا کے فرانسیسی علاقے پر قبضے کے بعد بارسلونا کے حکمران ( Conde de Barcelona ) گیفرے ایل ویلوسو سے مدد مانگی کہ وہ اسے ان کے قبضے سے نجات دلائے۔ اس جنگ میں گیفری بہادری سے لڑتا فتح یاب تو ہوا مگر شدید زخمی بھی ہو گیا۔ فرانسیسی بادشاہ اس سے ملنے آیا تاکہ اس کی اس بہادری اور فتح گیفرے جو مانگے اُسے عطا کیا جائے۔ گیفرے نے اپنی حفاظتی ڈھال کی طرف اشارہ کیا جو مکمل طور پر سنہری تھی اور کہا کہ بادشاہ اس کی حفاظتی ڈھال کو کوئی علامت دیں جس پر بادشاہ نے اپنی چار انگلیاں گیفرے کے خون بہتے زخم میں ڈبو کر چار سرخ سطور عموداً ڈھال پر کھینچ دیں۔ کاتالونیہ کے جھنڈے (La señera) پر کھنچی چار عمودی سطور گیفرے کے خون کی ہیں۔
(۱۲) اوبرا (Obra) تعمیرات، مکان، گلیاں اور منزل بنانا۔
ادبا اور مصور کے کام کو بھی اوبر کہتے ہیں۔ اوبریرو (Obrero) کا مطلب ہے مستری، مزدور، کام کرنے والا، کاری گر۔ تعمیرات میں مستری کو Paleta اور مزدور کو Peón یا ayudante کہتے ہیں اور اّس باب میں پاکستانیوں نے انقلابی اور ہنگامی بنیادوں پر ترقی کی۔
Comments are closed.