بی جے پی کو کرناٹک میں عبرتناک شکست

تحریر:محمد شہباز

بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کے انتخابات میں حکمران جماعت بی جے پی کو عبرتناک شکست کا سامناکرنا پڑاجبکہ کانگریس نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی ہے۔یہ انتخابات بھارت میں رواںبرس ہونے والے پانچ ریاستی انتخابات میں سے پہلے انتخابات ہیں جنہیں اپریل اور مئی 2024 میں ہونے والے بھارتی پارلیمانی انتخابات کے لیے انتہائی اہم قراردیاجا رہا ہے۔یہ انتخابات کانگریس رہنما راہول گاندھی کو رواں برس مارچ میں ہتک عزت کا مجرم قراردیے جانے اور بھارتی پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم ہوجانے کے بعد نریندر مودی کی بی جے پی اور کانگریس کے درمیان پہلا بڑا انتخابی معرکہ بھی تھا ۔بی جے پی کی حکومت والے کرناٹک میں 10مئی کو ووٹ ڈالے گئے اور 13 مئی کو ووٹوں کی گنتی کی گئی۔ کانگریس نے 224رکنی اسمبلی میں136نشستیں حاصل کیں جبکہ بی جے پی کو 64 سیٹوںپر اکتفاکرنا پڑا۔ کرناٹک میں شکست بی جے پی کے لیے ایک غیر معمولی دھچکا ہوگا کیونکہ مودی کو نو برس اقتدار میں رہنے کے بعد بھی انتہائی مقبول قراردیاجارہا ہے اور وہ2024کے بھارتی پارلیمانی انتخابات میں تیسری بار جیتنے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ کانگریس رہنماراہول گاندھی نے دہلی میں پارٹی ہیڈکوارٹر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ کانگریس کرناٹک میں غریبوں کے ساتھ کھڑی ہے، ہم نے غریبوں کے مسائل پر الیکشن لڑے ہیں اور نفرت کا بازار بند کر دیا گیا ہے۔مجھے اس بات پرسب سے زیادہ خوشی ہے کہ ہم نے یہ لڑائی نفرت یا غلط الفاظ سے نہیں لڑی بلکہ ہم نے یہ لڑائی محبت اور کھلے دل کے ساتھ لڑی اور کرناٹک کے لوگوں نے دکھادیا کہ یہ وہ محبت کو پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کرناٹک تقریبا ساڑھے چھ کروڑ افراد کا گھر ہے اور اسے جنوبی بھارت میں بی جے پی کا گیٹ وے سمجھا جاتا تھا، کیونکہ پارٹی نے خطے میں کہیں اور انتخابات نہیں جیتے ہیں۔

 کرناٹک انتخابات میں کانگریس کی کامیابی کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے مجموعی طور پر 12مسلم امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے تھے جن میں سے 10کامیاب ہوئے ہیںجن کے نام رحیم خان ، رضوان ارشد، ضمیر احمدخان، اقبال حسین ،عبدالقادر، تنویر سیٹھ، عبدالحمید کالا صاحب، محمد سلام، کنیز فاطمہ اور آصف سیٹھ ہیں۔ نریندرا مودی، بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ ، بی جے پی صدر جے بی نڈ ا سمیت پارٹی کے تمام مرکزی رہنماوں نے انتخابی مہم میں حصہ لیا ، بڑے بڑے دعوے اور وعدے کیے اور کھل کر ہندو کارڈ کھیلا۔ بی جے پی نے ریاست میں کل 9ہزار 1سو25ریلیاں نکالیں اور1ہزار3سو77روڈ شو کیے ۔ انتخابی مہم کے آخری دو روز میں مودی نے 42ریلیاں کیں جبکہ امیت شاہ بھی پیچھے نہ رہے اور 30ریلیوں میں حصہ لیا لیکن ریاست کے مسلم رائے دہندگان کسی بھی جھانسے میں نہیں آئے اور ہندو تو ا بی جے پی کو شکست سے دوچار کر دیا۔

کرناٹک جہاں کانگریس نے بی جے پی کے خلاف انتخابات میں بڑی سیاسی فتح حاصل کی ہے وہیں تلک وادی کے بیگلاوی  علاقے میں ایک انتخابی گنتی کے مرکز کے باہر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ جن لوگوں نے پاکستان کی حمایت میں نعرے لگائے وہ مبینہ طور پر کانگریس کے رکن تھے۔بتایا جاتا ہے کہ یہ واقعہ تلک وادی پولیس تھانے کی حدود میں پیش آیا۔

کرناٹک جنوبی بھارت کی وہ واحد ریاست تھی جہاں بی جے پی کی حکومت قائم ہے، چھ کروڑ سے زیادہ کی آبادی والی ریاست کرناٹک جنوبی بھارت کی واحد وفاقی اکائی تھی جہاں بی جے پی کی حکومت قائم تھی، جو اس شکست کے بعد وزیراعظم مودی کی جماعت نے کھو دی ہے۔اپنی ایک ریلی میں مودی نے مسلم مخالف نئی فلم دی کیرالہ سٹوری کی تعریف کی جس میں ہندو خواتین کے اسلام قبول کرنے اور داعش گروپ میں شامل ہونے کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔مودی نے دیوتا ہنومان کا نعرہ لگا کر ہندو ووٹروں کو راغب کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔اس کے برعکس کانگریس نے سیکولرازم، غریبوں کو بجلی ، اناج دینے اور بی جے پی کی بدعنوانی کے خلاف سخت مہم چلائی۔

 تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرناٹک کے نتائج  بھارت میں آئندہ کے عام انتخابات پر محدود اثرات مرتب کریں گے جس میں بی جے پی کو مسلسل تیسری کامیابی حاصل کرنے کی توقع ہے۔سیاسی مبصر اور کتاب نریندر مودی: دی مین، دی ٹائمز کے مصنف نیلنجن مکوپادھیائے نے کہا: ان انتخابات نے مودی کی مقبولیت کے پردے کو چاک کر دیا ہے۔انہوں نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا: یہ ظاہر کرتا ہے کہ ووٹروں کو پولرائز کرنے کی بی جے پی کی کوششیں کسی نہ کسی طرح کامیاب نہیں ہوئیں اور یہ کہ ہندوتوا کی سیاست ہمیشہ کام نہیں آتی۔انہوں نے کہا کہ یہ کامیابی اپوزیشن جماعتوں کے اثر کو بڑھا دے گی۔کانگریس گاندھی خاندان کی جماعت ہے جس کا کئی دہائیوں سے بھارتی سیاست پر غلبہ رہا ہے لیکن یہ حالیہ برسوں سے زوال کا شکار ہے تاہم کرناٹک میں کامیابی سے پارٹی کے اقتدار والی ریاستوں کی تعداد چار ہو گئی ہے۔بی جے پی کرناٹک میں 2018 میں ہونے والے آخری ریاستی انتخابات میں بھی اکثریت سے محروم تھی لیکن اس نے ایک برس بعد مبینہ طور پر حکمراں اتحاد کے اراکین کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اقتدار سنبھالا تھا۔

بھارتی ریاست مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے کرناٹک کے انتخابی نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پورے بھارت میں بی جے پی کے خاتمے کی شروعات ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ 2021میں مغربی بنگال نے کرناٹک کے لوگوں کو یہ راستہ دکھایا تھا کہ بی جے پی ناقابل تسخیر نہیں ہے۔سب سے پہلے مغربی بنگال نے راستہ دکھایا۔ بنگال سے بنگلورو تک لوگوں نے یکساں خطوط پر بولنا شروع کر دیا ہے۔ مستقبل قریب میں ایک دو اور ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ بی جے پی کو وہاں بھی شکست ہوگی۔بالآخر 2024میں بی جے پی کو بھارتی عوام اقتدار سے باہر پھینک دیں گے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے بھی کرناٹک کے عوام کو مبارکباد دی ہے کہ وہ ان لوگوں کو مسترد کر رہے ہیں جو لوگوں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔فاروق عبداللہ نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کرناٹک کے لوگوں کو مبارکباد دی کہ وہ لوگوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے والوں کو مسترد کرتے ہیں، جو دھمکی دیتے تھے کہ اگر انہوں نے کسی اور کو ووٹ دیا تو سب کچھ بند کر دیا جائے گا۔جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس سمیت غیر بی جے پی جماعتیں اسمبلی انتخابات کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ سابقہ ریاست میں آخری اسمبلی انتخابات 2014 میں ہوئے تھے۔

پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی نے بھی کرناٹک اسمبلی انتخابی نتائج کو امید کی کرن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ باقی بھارت کے لوگ بھی فرقہ وارانہ سیاست کو مسترد کر کے ترقی اورخوشحالی کے لئے ووٹ دیں گے۔ محبوبہ مفتی کا کہنا تھاکہ بی جے پی نے حالات کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی پوری کوشش کی جیسا کہ اس کی عادت ہے۔ یہاں تک کہ اس نے بجرنگ بلی، مذہب، ہندو مسلم کو بھی موضوع بحث بنایا ۔نریندر مودی نے مذہبی بنیادوںپر گفتگو کرنے کی کوشش کی۔ اس کے باوجودلوگوں نے ان مسائل کو ایک طرف رکھا اور ترقی کے مسئلے کا انتخاب کیا جس پر کانگریس نے اپنی مہم چلائی۔ یہ اچھی خبر ہے کیونکہ بھارت میں عام انتخابات آئندہ برس ہونے والے ہیں۔ کرناٹک کے لوگوں نے ایک اچھا پیغام بھیجا ہے کہ وہ ہندو مسلم بحث میں نہیں پڑنا چاہتے اور دیوتائوں کے نام پر نہیں بلکہ بے روزگاری، مہنگائی اور دیگر مسائل پر ووٹ دینا چاہتے ہیں۔

 کرناٹک نتخابات میں واضح برتری حاصل کرنے والی کانگریس پارٹی کی واحد نامزد مسلم خاتون ایم ایل اے کنیز فاطمہ نے اعلان کیا ہے کہ ریاست کے تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب پابندی جلدختم کر دی جائے گی۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کنیز فاطمہ نے کہا کہ “ان شائ اللہ ہم آئندہ دنوں میں حجاب پر پابندی ہٹا دیں گے اور ان مسلم طالبات کو دوبارہ تعلیمی اداروں میں لے جائیں گے جو حجاب پر پابندی کی وجہ سے امتحانات نہ دینے کی وجہ سے اپنے دو قیمتی برس کھو چکی ہیں۔ حجاب پر پابندی سے متعلق تنازعہ دسمبر 2021میں اس وقت پیدا ہواتھا جب بی جے پی کی ریاستی حکومت نے تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی عائد کی تھی جس کے بعد پوری ریاست میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔یہ معاملہ ابھی تک بھارتی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔ کنیز فاطمہ نے ریاست میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی قیادت بھی کی تھی اور طرفہ تماشہ یہ کہ بی جے پی حکومت میں وزیر تعلیم رہنے والے بی سی ناگیش جس نے حجاب کی سخت مخالف کرتے ہوئے تعلیمی اداروں میں اس پر پابندی لگائی تھی ،وہ بھی شرمناک شکست سے دوچار ہوئے ہیں۔اسی کو کہتے ہیں اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔

Comments are closed.