عمران خان نے پی ٹی آئی نہیں،سیاست کیساتھ ظلم کیا؟

تحریر: سردار عمران اعظم

اسلام آباد: پاکستان کی سیاست میں کوئی بھی تجزیہ یا رائے ہر گز حتمی نہیں ہو سکتی ، وقت اور حالات راتوں راتے کروٹ لیتے ہیں اور منظر نامہ بدل جاتا ہے ، ماضی قریب اور آج کا سیاسی منظرنامہ اس کی مثال ہے۔ ڈیڑھ سال پہلے تک تحریک انصاف کے آئندہ پانچ سال کی حکمرانی کی پیشگوئیاں ہو رہی تھیں،آج تحریک انصاف کو بطور پارٹی اپنی بقاء کے لالے پڑے ہیں۔

میری نظر میں اس کے سب بڑے ذمہ دار خود عمران خان ہیں،وہ بہت اچھا کھیلے لیکن میچ فنش نہ کر سکے اور چھکا مارکرمیچ جیتنے کے شوق میں پاکستانی سیاست کا ورلڈ کپ ہی گنوا بیٹھے جو 75 سال میں صرف ایک بار ہوا ہے۔ عمران خان کو قدرت نے ایک کے بعد ایک موقع فراہم کیا لیکن سب اپنی انا کی بھینٹ چڑھا دئیے۔عدم اعتماد کے بعد عمران خان نے امریکی مداخلت اور میر جعفر ،میر صادق تک کا بیانیہ بنایا ، جھوٹ تھا یاسچ لیکن کامیابی سے عوام کے دل و دماغ میں اتار نے میں پوری طرح کامیاب ہوئے ۔عمران خان نے ملک کے کونے کونے میں مایوس کارکنوں سمیت ناراض طبقات کو پھر سے متحرک کیا اور اسٹیبلشمنٹ کو دباو میں لانے میں کامیاب ہو گئے لیکن پھر حالات کا درست ادراک نہ کرسکے ۔

عمران خان نے اپنے ہاتھوں سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلی توڑ کر قومی اسمبلی سے استعفو ں کے بعد دوسری بڑی غلطی کی ۔ انہوں نے بڑے عوامی جلسے کیے تو ملک کی طرح بیرون ملک بیٹھے سوشل میڈیا وارئیرز بھی ان کے بیانئے کی تشہیر میں پیش پیش رہے۔ عمران خان کے سخت ترین لب لہجے کے باوجود ادارے ضبط کر مظاہرہ کرتے رہے ، انہیں عمران خان کی مقبولیت کا اندازہ اچھی طرح سے تھا لیکن شائد عمران خان کو معلوم نہیں تھاکہ ان کی حد کیاہے ؟ اور اب تک جو کچھ حاصل کر چکے ہیں وہ کس قدرزیادہ ہے ۔ عمران خان کو چاہیے تھاکہ پہلا معرکہ کامیابی سے سر کرنے کے بعد ہرصورت الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنانے کی کو شش حکومت سے زیادہ کرتے تاکہ پورے ملک میں پی ٹی آئی کے لیے ہمدردی کی جو لہر اٹھی ہے وہ ضائع نہ ہو ، اکتوبر میں سہی ا گر عمران خان بات چیت کے ذریعے عام انتخابات کروانے میں کامیاب ہوجاتے تو آنے والا اقتدار نہ بھی ملتا، سیاست ضرور جیت جاتے لیکن عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو ہمیشہ کےلیے پاکستانی سیاست سے باہر کر کے دس وکٹوں سے میچ جیتنا چاہتے تھے اور یہیں سے مار کھا گئے۔

اس بے لچک رویے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ عمران خان 1996 سے 2011 تک اپنی سیاست کے پہلے 15 سال مکمل بھول چکے تھے ، انہیں صرف 2011 کے بعد کا عمران خان یاد تھا ، وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ آج سیاسی مقبولت کی جس معراج پر ہیں،یہ صرف ان کی کرشمہ سازی ہے۔ آخرکار اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا کہ اپنی بقاء کی جنگ سرعام لڑی جائے ورنہ وہ وقت دور نہیں جب عمران خان کے کھلاڑی ہم پر راہ چلتے جملے کسیں گے۔ ضابطے پامال ، عمران خان پابند سلاسل ہوئے اور ردعمل کے طور عمران خان اور ان کے ساتھی وہ سب کر بیٹھے جس نے بازی ہی پلٹ دی ۔کپتان کی گرفتاری کے بعد ہونے والااحتجاج اس قدر منظم اور منصوبہ بند ی کیساتھ ہوا کہ عمران خان باہر آئے تو پی ٹی آئی رہنماوں اور کارکنان کی کارکر دگی دیکھ کر باغ باغ ہوگئے اور غیر مشروط مذمت کی بجائے پھولے نہ سمائے ۔ عمران خان کی مس کلکولیشن نے پی ٹی آئی جیسی مقبول جماعت کو اپنے ہاتھوں سے برباد کر دیا۔ عمران خان اپنے بے سر و پاء بیانات کیساتھ اپنا بیانیہ بھی تبدیل کرتے رہے ، امریکہ کے حوالے سے ان کی یکدم تبدیل ہوتی پالیسی نے ان کے حامی طبقات کو بھی ششدرکر کے رکھ دیا۔

 اب نتائج سب کے سامنے ہیں، عسکری ادار ے کے اندر اگر عمران خان کے لیے کوئی ہمدردی کا عنصر موجود بھی تھا تو اس کا جواز باقی نہ رہا، اس کا عملی مظاہرہ گزشتہ کور کمانڈرز پریس کانفرنس تھی جس میں تمام شرکاء یک زبان تھے ۔فوجی تنصیبات اور شہداء کی یاد گاروں پر حملوں کو ریڈ لائن تصور کیاگیا اور اب پارٹی جس طرح بنی تھی ، شیرازہ بھی اس طرح بکھر رہاہے ، سو شل میڈیا وارئیرزکی اکثریت بھی چپ سادھ چکی ، جو بول رہے ہیں وہ بھی اپنی کھال بچانے کے لیے الزامات بیرون ملک بیٹھے کارکنان پر عائد کر رہے ہیں کہ ہم تو اچھے بچے بن گئے ہیں، ساری خرابی باہر والے پید اکر رہے ہیں۔

یوں اب یہ نوشتہ دیوار ہے کہ مستقبل قریب میں پی ٹی آئی کی شکل 2011 کی پی ٹی آئی سے زیادہ مختلف نہیں ہوگی لیکن ایک اہم فیکٹر اب بھی موجود ہے اور وہ پی ٹی آئی کا نوجوانوں اور خواتین پر مشتمل ووٹ بینک ہے ، الیکٹیبلز جیسے شامل کیے گئے تھے اس سے زیادہ تیزی سے اڑان بھر رہے ہیں لیکن اگر پارٹی سلامت رہتی ہے تو پی ٹی  سلامت  رہتی ہے تو پی   تھے  اس سے زیادہ  تیزی سے  ان آئی کا ٹکٹ ہلکا نہیں ہوگا، خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے ہر حلقے میں پہلا نہیں تو دوسرا یا تیسرا نمبر پی ٹی آئی امیدوار کا ہوگا لیکن عمران خان جو خود کش حملہ کر چکے ہیں ، اس کے نقصانات کا مکمل اندازہ لگانا سردست ممکن نہیں۔

 ا س سارے منظر نامے کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو جمہوریت پسند افراد کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ اپوزیشن کے بغیر کسی بھی ملک میں جمہوریت کا تصور بھی محال ہے لیکن پی ٹی آئی کے انجام کے بعد کسی سیاسی جماعت کی جانب سے آئندہ سول بالادستی کی کوئی آواز سننے کو ملے گی نہ کوئی تحریک چلے گی ۔ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے راستے پر ایک نئی دیوار کھڑی کر دی گئی ہے ، ایک مضبوط اور متحرک اپوزیشن کا وجود جمہوریت کی دلیل ہے تو اپوزیشن کے خاتمے کا مطلب عوام کی آواز دبانے کے سوا کچھ نہیں۔ کیا آئندہ کے ایوان میں بھی راجا ریاض جیسا ہی کوئی اپوزیشن لیڈر ہوگا؟یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنا اس وقت ملک کے سیاسی کارکنوں ، دانشوروں ، صحافیوں اور وکلاء سمیت مختلف مکاتب فکر کے لیے سب سے ضروری ہے۔

Comments are closed.