عالمی یوم مہاجرین اورکشمیری عوام

تحریر: محمد شہباز

آج جب پوری دنیا میں پناہ گزینوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی مظالم کشمیری عوام کو اپنے ہی وطن میں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ گزشتہ 34 برسوں میں بھارتی ظلم و جبر اور بربریت کے باعث 40 ہزار سے زائد کشمیری مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔1947 میں جموں کے لاکھوں مسلمانوں کو ڈوگرا افواج اور ہندو جنونیوں نے بے دخل کیا تھا۔جبکہ ڈھائی سے تین لاکھ مسلمانوں کا قتل عام اس کے علاوہ ہے۔ 1947 سے لیکر اب تک 35 لاکھ سے زائد کشمیری  بھارتی مظالم سے بچنے کیلئے آزاد جموں و کشمیر، پاکستان، برطانیہ اور دنیا بھر کے دیگر ممالک میں پناہ لے چکے ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیرکی مسلم اکثریت کے وجود کو غاصبانہ اور ناجائزبھارتی قبضے کے باعث شدید خطرات کا سامنا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں مسلمانوں کی جبری بے دخلی کا مقصد یہاں کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے۔ مودی حکومت مسلم اکثریتی مقبوضہ جموں و کشمیرکو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

کشمیری عوام تنازعہ کشمیر کی وجہ سے صدیوں سے مشکلات کا شکار ہیں۔ تنازعہ کشمیر کے حل ہونے تک کشمیری مہاجرین اپنے گھروں کو واپس نہیں آ سکتے۔کیونکہ نہ صرف ان کی جان و مال بلکہ عزت و عصمت بھی بھارتی درندوں کے رحم و کرم پر ہے۔لہذا پناہ گزینوں کا عالمی دن اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اس کے عالمی تناظر یعنی اقوام متحدہ کی منظور شدہ قرار دادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے تاکہ کشمیری عوام ایک تو اپنے سیاسی مستقبل کا خود فیصلہ کرسکیں ،دوسرا بھارتی مظالم کے نتیجے میں اپنے گھر بار چھوڑنے والے لاکھوں کشمیری اپنے گھروں کو بھی واپس آسکتے ہیں۔عالمی برادری باالعموم اور اقوام متحدہ کوبالخصوص مقبوضہ جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کیلئے بھارت پر دبا وڈالنا چاہیے۔تاکہ اس دیرینہ تنازعے کو حل کیا جاسکے،جو اب انسانیت کا بھی مسئلہ بن چکا ہے۔مسئلہ کشمیرکے باعث ہزاروں خاندان کنٹرول لائن کی دونوں جانب آباد  ہیں اور یہ منقسم خاندان ایک دوسرے سے ملنے سے بھی قاصر ہیں۔ہزاروں لوگ ملنے کی حسرت لیے اس دنیا سے چلے گئے ہیں۔کبھی دریا کے دونوں کناروں پر یہ ایک دوسرے کو دیکھ کر آنسو بہاتے ہیں اور ان کی آواز دریا کی بلند لہروں میں دب جاتی ہے ۔بس یہ اشاروں سے ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں،جو پوری انسانیت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سات کروڑ سے زائدافراد اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے قیام کے 76 برسوں کے دوران پہلی بار جنگوں، تنازعات اور جبر کے باعث بے گھر ہونے اور عارضی کیمپوں میں پناہ لینے والے افراد کی تعداد سات کروڑ سے متجاوز کر گئی ہے۔جس میں صرف گذشتہ برس 23 لاکھ افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔جو  گزشتہ  20 برس پہلے کے مقابلے میں دگنی ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں سب سے بڑی ہجرت 6 نومبر 1947 میں ہوئی۔جب ہندو بلوائیوں نے ڈوگرا افواج کے ساتھ مل کر نہ صرف لاکھوں بے بس اور نہتے مسلمانون کا قتل عام کیا بلکہ اس درندگی سے بچنے کیلئے لاکھوں مسلمان پاکستان کے سیالکوٹ،گوجرانولہ،ظفر وال ،شکر گڑھ اور دوسرے شہروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ان کی نسلیں اب پاکستان میں چلی آرہی ہیں اور ان کے سینوں میں آج بھی مقبوضہ جموں وکشمیر خاص کرصوبہ جموں کی یادیں تازہ ہیں۔مہاجرت کی زندگی بسر کرنے والے یہ کشمیری اس درد کو نہیں بھولے اور ان کے بچوں نے تحریک آزادی کشمیر میں عملا شرکت کرکے اپنا گرم گرم لہو بہایا ہے۔

2015 میں سرگباش ہونے والے جموں کے سیاسی کارکن اور روزنامہ کشمیر ٹائمز کے بانی مدیر وید بھسین 1947 میں اٹھارہ برس کے تھے۔ستمبر 2003 میں جموں یونیورسٹی میں منعقدہ ایک سمینار میں ایک مقالہ تقسیم کے تجربات  جموں 1947  اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے وید بھسین نے کہا کہ لارڈ مانٹ بیٹن کے تقسیم فارمولہ کے اعلان کے فورا بعد ہی جموں میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھنے لگی تھی۔پونچھ میں مہاراجا ہری سنگھ انتظامیہ کے سابقہ جاگیر کو اپنے براہ راست کنٹرول میں لینے اور کچھ ٹیکس لگانے کے خلاف ایک مقبول غیر فرقہ وارانہ تحریک کی ابتدا ہوئی۔ اس احتجاج سے غلط طریق سے نمٹنے اور مہاراجا کی انتظامیہ کی طرف سے وحشیانہ طاقت کے استعمال نے جذبات کو بھڑکا دیا اور اس غیر فرقہ وارانہ جدوجہد کو فرقہ وارانہ لڑائی میں بدل دیا۔وید بھسین کہتے ہیں کہ مہاراجا کی انتظامیہ نے نہ صرف تمام مسلمانوں سے ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا بلکہ ڈوگرا افواج میں بڑی تعداد میں مسلمان فوجیوں اور مسلمان پولیس آفیسراں جن کی وفاداری پر انھیں شبہ تھا، کو غیرفعال کر دیا۔ستمبر کے آخر تک جموں کے بشنہ، آر ایس پورہ اور اکھنور وغیرہ کے سرحدی علاقوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے سیالکوٹ علاقہ کی طرف نقل مکانی کر گئی۔ کیونکہ پڑوسی پنجاب میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات سے سرحدی علاقوں میں مکمل خوف و ہراس پھیل چکا تھا۔ اخبارکشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انورادھا بھسین جموال کا کہنا ہے کہ صوبہ جموں میں ہونے والے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ تقسیم آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی دانستہ کوشش تھی اور 1947 میں مسلمانوں کے قتل عام  اور ان کی نقل مکانی سے صرف ضلع جموں کے کئی مسلم اکثریتی دیہات میں صرف ہندو یا سکھ آبادی باقی رہ گئی۔

جبکہ بھارتی صحافی سعید نقوی اپنی کتاب دوسرے ہونے کے ناتے: بھارت میں مسلمان میں لکھتے ہیں: 1941 کی مردم شماری کے مطابق صوبہ جموں کی مسلم آبادی 12 لاکھ سے زیادہ تھی جبکہ صوبے کی مجموعی آبادی 20 لاکھ تھی۔ ضلع جموں کی مجموعی آبادی 4.5 لاکھ تھی جس میں مسلمانوں کی آبادی 1.7 لاکھ تھی۔ دارالحکومت جموں کی آبادی صرف پچاس ہزار تھی جس میں مسلمان 16 ہزار تھے۔1947 ہو 1990 یا اس کے بعد معروضی حالات مقبوضہ جموں وکشمیر کے مسلمانوں کو آج بھی بڑے پیمانے پر خطرات لاحق ہیں۔ کشمیری عوام مقبوضہ جموں وکشمیر میں تعینات10 لاکھ سے زائد بھارتی فوجیوں کی طرف سے پیدا کردہ سنگین صورتحال میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر گزشتہ7 دہائیوں سے زیادہ عرصے سے وحشیانہ بھارتی فوجی قبضے میں ہے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ جموں وکشمیرمیںانسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوچکا ہے۔ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں 5 اگست 2019 سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ مودی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو ایک بڑی کھلی جیل میں تبدیل کر کے یہاں کے باشندوں کے بنیادی انسانی حقوق سے بھی انکار کر دیا۔ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں عام آدمی بھارتی فوجیوں کی طرف سے روزانہ محاصروں، چھاپوں، تلاشیوں اور جبروتشدد کا سامنا کرتا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے ماورائے عدالت قتل،دوران حراست تشدد اور من مانی گرفتاریاں معمول بن چکی ہیں۔ بھارتی حکام مقبوضہ جموںو کشمیرمیں لوگوں کی گرفتاری فوری طور پر عمل میں لا رہے ہیں اور پھران کی غیر قانونی حراست کو طول دینے کے لیے ان پر کالے قوانین کا اطلاق عمل میں لاکر ان کی جائیدادواملاک اور زمینوں پر قبضہ بھی کیا جاتا ہے۔ بھارتی حکام کبھی ایک تو کبھی دوسرے بہانے کشمیری عوام کی املاک پر قبضہ کر رہے ہیں تاکہ ان کے آزادی کے عزم کو توڑا جا سکے۔البتہ مودی اور اس کے حواریوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ کشمیری عوام کے خلاف ان کے ظالمانہ حربے پہلے بھی ناکامی سے دوچار ہوئے اور آئندہ بھی بھارتی حکمرانوں کو ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑے گا۔

کشمیری عوام تمام تر مشکلات کے باوجود آزادی کی مشعل کو جلائے رکھنے کیلئے پرعزم ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں مصیبت زدہ لوگوں کو بچانے کیلئے دنیا کو بڑے پیمانے پر آگے آنے کی ضرورت ہے اور تنازعہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے ۔بھلا کوئی انسان اپنی جائے پیدائش کو بھلا سکتا ہے۔ہر انسان اپنی فطرت پر ہے اور اپنی اصل فطرت کی طرف ہی لوٹ کر واپس جاتا ہے۔اہل کشمیر بلاشبہ گزشتہ76 برسوں سے زندگی کے تلخ مدو جزر سے گزر رہے ہیں مگر وہ اپنی اصل سے ہٹے نہیں اور آج بھی اس کی بقا کے حصول کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔وہ دن دور نہیں جب جبر کی سیاہ رات بھی اپنے انجام کو پہنچے گی۔

Comments are closed.