پاکستان میں آئی ایم ایف سے نو ماہ کے اسٹینڈ بائی معاہدے کی حمایت کے لئے آئی ایم ایف کے وفد کی سانحہ 9 مئی اور توشہ خانہ سمیت دیگر بدعنوانی کے مقدمات میں گھرے تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات کو انتہائی معنی خیز قرار دیا جارہا ہے۔
ایک طرف تو پاکستان میں عام تاثر ہے، آئندہ انتخابات سے قبل عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں نااہل کرکے عام انتخابات سے باہر کردیا جائے گا اور 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت کے باعث عمران خان عام انتخابات سے قبل ہی سزا وار قرار دے کر جیل بھیج دئیے جائیں گے جبکہ تحریک انصاف کے بیشتر رہنماؤں کی جانب سے وتحریک انصاف سے علیحدگی نے پارٹی کا شیرازہ بکھیر دیا ہے اور پارٹی ایسی پوزیشن میں نظر نہیں آتی کہ وہ قومی سطح کے کسی انتخابات میں حصہ لے سکے، ایک ایسی پارٹی جس کے بظاہر حکومت میں آنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اس پارٹی کے چئیرمین سے آئی ایم ایف کے وفد کی جانب سے اس یقین دھانی کو انتہائی معنی خیز قرار دیا جارہا کہ وہ نہ صرف ابھی حکومت اور اس کے درمیان ہونے والے فیصلے کی حمایت کرے اور اگر وہ برسر اقتدار آجائے تو گارنٹی دے پہلے کی طرح معاہدے کو سبوتاژ کرکے معاہدے کو ختم تو نہیں کرے گی جبکہ عمران خان نے معاہدے کی حمایت کے بدلے ملک میں وقت پر عام انتخابات کی ضمانت طلب کی جواباٍ آئی آیم ایف نے بروقت عام انتخابات کی گارنٹی یہ کہ کر دینے سے انکار کردیا ہے کہ حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق پاکستان کی موجودہ حکومت کو ایک بلین ڈالر، نگران حکومت کو ایک بلین ڈالر اور انتخابات کے نتیجے میں بننے والی منتخب جمہوری حکومت کو 900 بلین ڈالر دئیے جائیں تاہم وہ عین معاہدے کے مطابق انتخابات کے بروقت انعقاد کی گارنٹی پھر بھی نہیں دے سکتے؟
آئی ایم ایف کے اس جواب کے باوجود عمران خان نے آئی ایم ایف پروگرام کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ اسے شاندار بھی قرار دیا ہے، واشنگٹن میں تحریک انصاف کی اس حمایت اور وعدے کو ایک طرف تو تحریک انصاف کی نظریاتی شکست قرار دیا جارہا ہے دوسری طرف کہا جارہا ہے پروگرام کے نتیجے میں معاشی اصلاحات اور نئے ٹیکسز کے نتیجے میں مہنگائی کی نئی لہر آئے گی، تحریک انصاف پروگرام کی حمایت کے باعث اسکی مخالفت سے معذور ہوگی اور اس کی یہ معذوری اسکے ووٹرز کو بڑے پیمانے پر ناراض کرسکتی ہے، دوسری طرف اس ملاقات کے ذریعے آئی ایم ایف نے پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر بھی دباؤ بڑھایا ہے اور اس دباؤ کو پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیانات کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔
اسحاق ڈار نے اپنے بیانات کے ذریعے انہوں نے دبے لفظوں میں دعویٰ کیا تھا آئی ایم ایف سے پروگرام میں رکاوٹ کی وجہ پاک چین تعلقات کی روشنی میں کی جانے والی جیو پولیٹکس ہے اور ان کا اشارہ امریکہ کی جانب تھا، بظاہر اس ملاقات پر پاکستان تحریک انصاف خوش اور حکومتی حلقے پریشانی کا شکار ہیں مگر واشنگٹن میں پاک امریکہ تعلقات اور پاکستان تحریک انصاف کی سیاست پر نگاہ رکھنے والے دانشوروں کا کہنا ہے آئی ایم ایف نے ایک وار سے تحریک انصاف اور حکومت دونوں کو حلال کیا ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ جو حکومت کے ساتھ اور تحریک انصاف کی مخالف ہے، اس ملاقات کا اصل نشانہ تھی، یہ کون نہیں جانتا پاکستان میں کسی سیاسی پارٹی کی حکومت ہو بین الاقوامی تعلقات ہوں یا عالمی مالیاتی اداروں سے معاملات اسٹیبلشمنٹ کو آن بورڈ لئے بغیر فیصلہ کرنا ناممکن ہے۔
ایک طرف جہاں حکومت نے سانحہ نو مئی میں کردار ادا کرنے پر عمران خان کے خلاف دھشت گردی ایکٹ کے تحت چھ مقدمات بنا کر یہ خاموش اعلان کردیا ہے چئیرمین تحریک انصاف پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات نہیں بنائے جائیں گے تو دوسری طرف سانحہ نو مئی میں ملوث خواتین پر بھی آرمی ایکٹ کی بجائے سول عدالتوں میں مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور حکومت کے اس فیصلے پر یقینا انگلیاں اٹھیں گی، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے اس فیصلے کا مقصد سانحہ 9 مئی میں ملوث اہم خاندانوں کی گرفتار خواتین کو ریلیف دینا ہے کہ انصاف اور قانون کی نظر میں جرم عورت کرے یا مرد انصاف اور قانون کے تقاضے یکساں ہی رہتے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے ہرگز خالی نہیں ایک طرف تو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے عمران خان اور سانحہ نو مئی کے کرداروں کو قرار واقعی سزا دینے اور عمران خان کو نااہل قرار دے کر عام انتخابات سے دور کرنے کا تاثر پھیلایا جارہا ہے تو دوسری طرف عمران خان ایک بار پھر اپنی کسی متوقع گرفتاری پر عوامی ردعمل کی دھمکی دے رہے ہیں تو انکے سوشل میڈیا پر حمایتی بھی ایک نئے سانحہ نو مئی کی دھمیکیاں دیتے ہوئے “ ابھی نہیں تو کبھی نہیں” کی مہم چلانے کے ساتھ حکومت کی اس دلیل کو مسترد کررہے ہیں کہ سانحہ نو مئی ایک منظم سازش تھی اور عمران خان کے ساتھ انکے بہت سے قریبی ساتھی ملوث ہیں، سوشل میڈیا پر عمران خان کے حمایتی جو سانحہ نو مئی کے بعد بڑے پیمانے پر خاموش ہوگئے تھے ایک بار پھر پوری تیاری کے ساتھ لوٹ آئے ہیں اور یہ مہم چلاتے نظر آرہے ہیں جب عمران خان کے تمام اہم ساتھیوں کو تو پریس کانفرنسوں اور سانحہ نو مئی کی مذمت کے عوض معاف کردیا گیا اب وہ کونسے ساتھی ہیں جو اس سازش میں عمران خان کے شریک تھے؟
عمران خان جو توشہ خانہ کیس کو عدالت سے ناقابل سماعت قرار دلوانے میں ناکام رہے ہیں اور اس مقدمے کی باقاعدہ سماعت کا آغاز 12 جولائی سے ہوگا ، سوشل میڈیا پر ان کے حمایتوں کی نئی مہم ظاہر کرتی ہے عمران خان ایک بار پھر اپنے حمایتوں کو بھڑکا، بہلا پھسلا کر باہر نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، یا پھر یہ مہم اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھا کر کسی صلح صفائی کی حکمت عملی ہے؟ اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں ہی مل سکے گا، مگر یہ طے ہے عوام بوسیدہ سیاسی جمہوری نظام سے تنگ ہی نہیں بیزار و مایوس بھی ہیں اور عمران خان کی حمایت کرنے والوں کی اکثریت عمران خان کی محبت میں نہیں صرف روایتی سیاسی جمہوری نظام سے بیزاری اور نفرت میں عمران خان کے جھوٹ منافقت اور ہر یوٹرن کو بھی برداشت کرنے پر تیار ہیں، جس بوسیدہ نظام کے نتیجے میں شہباز شریف جائیں گے تو نوازشریف پھر لوٹ کر آجائیں گے، یا بلاول بھٹو کسی جوڑ توڑ کے نتیجے میں وزیراعظم بن جائیں گے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو یقیناٍ اس امر کا ادراک ہوگا عمران خان کو اندر یا باہر کردینے سے سیاسی کشیدگی بہرحال کم نہیں ہوگی جس نے معشیت ہی نہیں یکجہتی اور امن کو بھی نگل لیا ہے، اور پھر اسٹیبلشمنٹ سے بہتر کون جانتا ہے، متعصب ریاستی اور متنازعہ عدالتی نظام کی موجودگی میں جب نواز شریف کو جیل میں رکھنا ممکن نہیں تھا تو کل کے مقابلے میں آج کے مذید کمزور و متنازعہ و متعصب نظام کے ساتھ، عوامی سطح پر موجود گہری سیاسی سماجی تقسیم میں تحرک انصاف کے چئیرمین کے خلاف کسی بھی مقدمے میں لاکھ ٹھوس شواہد موجود ہوں انُہیں جیل میں رکھنا ممکن ہوگا؟ یا تحریک انصاف کو انتخابات سے الگ کرکے کیا کسی ایسی جمہوری حکومت کا قیام ممکن ہوگا جسے در پیشں سنگین چیلنجز سے نمٹنے کے لئیے درکار عوامی حمایت حاصل ہو؟
Comments are closed.