ایک دوست بتارہے تھے، حکمرانوں کو ڈر ہے گزشتہ سال والی بارشیں اس بار بھی ہوگئیں تو کیا ہوگا؟ عالمی برادری سے ابھی تک پچھلی بارشوں کی آگاہی نہیں ہوئی اور عوام رات دن بارش کی دعائیں مانگتے ہیں کہ جب 45 ڈگری سے اوپر کی گرمی میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ میں پنکھا بھی بند ہوجاتا ہے تو آپ سوچ بھی نہیں سکتے جیتے جی کیا قیامت گزرتی ہے۔
بچوں کا رونا اور بڑوں کی آنکھ میں ضبط کے چھپے آنسوؤں میں اپنا کٹتا دل اور کھولتا دماغ کیا کیا نہ حشر بپا کرتا ہے اور یہ گھنٹوں بسا اوقات دنوں کی لوڈ شیڈنگ صرف غربا کے علاقوں میں یہ کہ کر ہوتی ہے کہ یہاں بجلی چوری ہوتی ہے، امرا جنہوں نے اس ملک کو دیوالیہ کر دیا، لوٹ کے کھا گئے انکے یہاں ائرکنڈیشن بھی ہے، جنریٹر، یو پی ایس بھی، لوڈ شیڈنگ بھی نہ ہونے کے برابر اور اگر لوڈ شیڈنگ ہو بھی جائے تو فون کھڑک جاتے ہیں بھاگم دوڑ مچ جاتی ہے۔
گورنر سندھ جن کے بارے میں سابق کرکٹ کپتان سرفراز فرما رہے تھے“ کرکٹ کی ترقی کے لیے گورنر کا کردار تاریخی ہے“ وہ ہی گورنر سندھ جو امریکہ میں پاک فوج کے ایک نامور مخالف تنویر احمد جو اعلی امریکی حکام کو پاک فوج کے مظالم پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہیں اور جنہوں نے سانحہ 9 مئی کے بعد ہیوسٹن میں فوج کے خلاف احتجاجی مظاہرے کا بھی اہتمام کیا ان کے ساتھ مل کر گورنر سندھ امریکہ میں کرکٹ کی ترقی کے لئے کام کررہے ہیں اور اس ترقی کے پیچھے ان کی کروڑوں اربوں کی ترقی کی کہانی کافی طویل ہے۔۔
وہی گورنر سندھ فرماتے ہیں کراچی میں جو معشیت کا حب ہے یہاں نہ بجلی ہے نہ گیس نہ پانی، غیر قانونی پانی کے ہائیڈرنٹ چلانے والے 20 سے 40 لاکھ روپے یومیہ کماتے ہیں، 25 ہزار ماہانہ کمانے والے کے گھر 30 ہزار بجلی کا بل آتا ہے اور کراچی کی بجلی کمپنی لوگوں کو لوٹ رہی ہے اور بجلی بھی نہیں دے رہی، اس کا لائسنس کینسل کیا جائے۔ متحدہ پاکستان پر“ اوپر سے مسلط کردہ گورنر کی موجودگی میں ہی کراچی الیکٹرک جس کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف کراچی میں جگہ جگہ مظاہرے ہورہے ہیں، کے ترجمان دعویٰ کرتے ہیں کراچی میں معمول کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے، باقی سب افسانہ ہے، جوابا گورنر فرماتے ہیں “ یہ عجیب اور ظلم کا نظام ہے، جس ریاست میں ایک گورنر جس کا باطن اور ظاہر سب پر ظاہر ہو اسے مسکرا مسکرا کر روتے دیکھ کوئی ظالم ہی ہوگا جسے یہ یقین نہ ہو کہ واقعی بڑا عجیب اور ظالم نظام ہے۔
ایک دوسرے شناسا دعویٰ کررہے تھے “اس ملک میں ہر غریب غدار ہے یا پھر ڈاکو اور طاقتور دولت مند محب وطن اور قانون کے رکھوالے ہیں یہ قانون جو ان کی مرضی کے مطابق بدلتا بنتا بگڑتا رہتا ہے، یہاں وسائل سہولیات ایک مخصوص طبقے کی رکھیل ہیں، ان سے اگر کچھ بچ رہتا ہے تو غربا کے سامنے بالکل اسی طرح پھینک دیا جاتا ہے جیسے فراعین مصر اپنے عوام کو بس اتنا کھانے کو دیا کرتے تھے کہ کہیں یہ مر ہی نہ جائیں کہ اگر یہ مر گئے تو کس پر حکمرانی کریں گے اور کس پر اپنی “ خدائی “ دکھائیں گے۔
سیاست دان حکمران اس سب سے لاتعلق اس وقت آئین جمہوریت بچانے میں لگے ہیں اور اس کے لئے ضروری ہے نواز شریف کو انصاف مل جائے اور عمران اندر ہوجائے، اور ملک میں عام انتخابات ہو جائیں، عام انتخابات کے پس منظر میں ملک کے ایک نامور جہاندیدہ بلکہ گرُگِ باراں دیدہ دانشور فرما رہے تھے ، “عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں اور اکتوبر نومبر میں عام انتخابات ہونگے اور عوام جسے حکومت کا حق دیں گے وہ حکومت بنا لے گا “۔۔۔ اس سادگی پہ کون مر جائے نہ اے خدا ۔۔
کچے اور پکے کے ڈاکوؤں میں پھر ایک بار مقابلہ شروع ہوچکا ہے، حالانکہ کچے کی بے نامی ہزاروں ایکٹر زمین پر اگی فصلیں کٹ بھی چکیں اور بٹ بھی چکیں، پھر شریکوں میں اس لڑائی کا مقصد ۔۔؟ لڑائی کا آغاز اور وجہ بتارہی ہے پکے والے کہیں بے ایمانی کرگئے ہیں، چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں کو اپنے اصول بہت پیارے ہوتے ہیں ان سے کوئی انحراف کرے تو اسکی سزا موت ہے، ابھی تک پکے کے تین چھوٹے ڈاکو کچے کے ڈاکوں کے ہاتھوں زخمی بتائے جاتے ہیں اور کئی کو اٹھا کر لے گئے ہیں، ادھر شہر شہر روٹی سے محروم ڈاکوؤں اور پیٹ بھری تندوں کے درمیان بھی گھمسان کا رن پڑ چکا ہے، جس کا دائرہ تیزی سے پھیلتا جارہا ہے۔
آپ سب ہمیشہ کی طرح حسب دستور و روایت صبر شکر سے کام لیں اور دعا کریں اللہ تعالیٰ رحم کرے ، جس نے اپنے رحم کی شرائط بھی وہیں بیان فرما دیں ہیں جہاں صبر شکر اور رحم طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، پر تانوں کی تے سانوں کی
Comments are closed.