واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کی بلڈنگ، خان، جمائما اورانکے بچوں نے خریدی ہے؟

تحریر: آفاق فاروقی

امریکہ سے دوستوں نے پوچھا ہے، آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کے بعد نیا پاکستان کیسا ہے؟ تو عرض ہے ہندوستان میں مودی اور انکی کیبنٹ کے علاوہ جس طرح پورا ہندوستان

تیرے واسطے میں فلک سے چاند لاؤں گا

سولہ سترہ ستارے سنگ باندھ لاؤں گا

کی دھُن پر دیوانہ وار رقص کررہا ہے، بالکل اُسی طرح پاکستان میں عوام اور پی ٹی آئی کے علاوہ پوری حکومت اور اسُ کا حمایتی میڈیا آئی ایم ایف معاہدے کی تال پر دھمال ڈالنے کی آڑ میں مہنگائی پہ مہنگائی کیے جاتا ہے اور بتا یہ رہا ہے کہ مہنگائی کم ہورہی ہے، “ اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف مخالف میڈیا جس کی 90 فیصد تعداد اس وقت حکومت کا حصہ ہے، اُس کا خیال ہے اگر عام انتخابات وقت پر ہوگئے تو پچھتر سال کے مسائل حل ہونے کے ساتھ آئین جمہوریت کا بول بالا ہوجائے گا، بس اختلاف اتنا ہے، “انقلابی” میڈیا سمجھتا ہے ملکی مسائل کا حل آصف زرداری کے پاس ہے جبکہ ووٹ کی عزت کرنے کی آڑ میں ۔۔۔ کی حمایت کرنے والے میڈیاکا خیال ہے اس ملک کے قیام کے وقت ہی طے ہوگیا تھا ، اگر ملک چلانا ہے تو نواز شریف کو ہی ہر بار وزیراعظم بنانا ہے، مگر جیسے مسلمان 90 فرقوں کے باوجود کلمے پر متفق ہیں  میڈیا بھی تحریک انصاف کے بغیر مضبوط جمہوریت پر اتفاق رائے رکھتا ہے۔

آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد ملکی معاشی مسائل تو جانو حل ہوگئے اب مسئلہ یہ ہے موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے پر نئے عام انتخابات ہونگے یا نہیں؟ اس کا حقیقی جواب تو نگراں وزیراعظم اور اسکی کابینہ کے چہرے سامنے آتے ہی مل جائے گا کہ ۔۔ یہ دو تین مہینے والے ہیں یا دو سال والے، عمومی خیال یہی ہے لڈیاں ڈالنے والی سیاسی پارٹیوں اور میڈیا کو ایک بار پھر چونا لگے گا کہ نئی مردم شماری اور حلقہ بندیاں انتخابات ملتوی کرنے کا اخلاقی قانونی جواز فراہم کریں گی اور انصاف پسند فائز عیسی انصاف کا بول بالا کریں گے،ساتھ ہی خان اپنے جھوٹے مکار بیانیے کے باوجود ریاست کے چاروں ستون سے مایوسی کے باعث سروں پر سوار ہے، جس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے خان گرفتار ہوگا نہ سزا ہوگی، بس اسے ڈرا ڈرا کر مارنے کی حکمت پر عمل ہورہا ہے،  کمزور ہوتی ریاست اور متنازعہ متعصبانہ نظام انصاف ،اب خان کی گرفتاری یا سزا کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

انتخابات ملتوی کروانے کی اصل وجہ جہاں ایک طرف تحریک انصاف ہے تو دوسری طرف  آئی ایم ایف سے کیا معاہدہ بنے گا جو آئی ایم ایف نے آؤٹ آف شیڈول جاکر کیا ہے، پاکستان سے معاملات آئی ایم ایف کے بورڈ اجلاس کے کسی ایجنڈے پر ہی نہ تھے جو عام حالات میں دس سے پندرہ دن پہلے ہی منظر پہ آچکا ہوتا ہے مگر یہاں تو اجلاس سے ایک دن پہلے بھی یہ معاملہ ایجنڈے میں شامل نہیں تھا، مگر عین اجلاس کی صبح “اُنہوں” نے جو آج بھی اس ملک میں سب سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری میں حصہ ڈالتے ہیں ایک کال کی اور اجلاس کا پورا ایجنڈا تبدیل ہوگیا، کہا جاتا ہے معاہدہ کی ایک ایک شق ایک ایک نکتے کاما پر پیریڈ لگا کر معاہدہ منظور کیا گیا ہے کہ اس سے انحراف پاکستانی اشرافیہ کو بھی ڈیفالٹ کردے گا جس نے انتہائی محنت اور جانفشانی سے پچھتر سال لگا کر عوام کو ‘کمپلیٹ ڈیفالٹ’ کردیا ہے اور اب خوشی کے شادیانے بجا اور ڈھول بجانے والوں میں تحریک انصاف بھی شامل ہے جو دعویٰ کررہی ہے انکی حمایت کی بدولت معاہدہ شرمندہ تعبیر ہوسکا ہے۔

وہ تحریک انصاف جو سنگین غداری اور دھشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنے جارہی ہے مگر اسٹیبلشمنٹ میں آج بھی اتنا اثر نفوذ رکھتی ہے اس نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کی آفت زدہ قرار پانے والی بلڈنگ پہلے خریدار کے منہ سے نکال کر صرف 3 لاکھ ڈالر زائد دے کر خرید لی، جبکہ پہلا خریدار چلاتا ہی رہ گیا میں نئی بولی میچ کرنے کو تیار ہوں، مگر جب طے کرلیا گیا ہو اخلاقیات کوئی چیز ہوتی ہے نہ لین دین کے اصول، بلڈنگ خریدنے والے امریکن پاکستانی بزنس مین حفیظ خان عمران خان کے پرانے ساتھیوں میں سے ہیں اور امریکہ میں عمران خان ان کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ اور انکے دونوں بچوں پر مشتمل بورڈ آف ٹرسٹ پرمشتمل ایک پُر اسرار این جی او “ اقدار“ کے ٹرسٹیوں میں حفیظ خان خود بھی شامل ہیں۔

بلڈنگ کی خریداری کے چھ ماہ کے دوران “ اقدار“ کے کرتا دھرتا اور عمران خان کے ایک پرانے “سہولت کار “دبیر ترمذی اس خریداری کے پس منظر میں امریکہ میں موجود پاکستانی صحافیوں کو بریف کرتے ہوئے فرماتے رہے ہیں “ بس یہ بلڈنگ خریدنے کی دیر ہے، پھر پاک امریکہ تعلقات،پاک چین تعلقات جو ہمالیہ سے کہیں زیادہ اونچے اور سمندروں سے کہیں زیادہ گہرے ہیں ان تعلقات کو دنوں میں مات دیدیں گے اور پاکستان کا بیرونی و اندرونی قرض کا خاتمہ  بھی بس اس بلڈنگ کی خریداری سے مشروط ہے“۔

واشنگٹن میں ایک صحافی دوست بتارہے تھے، اس آفت زدہ بلڈنگ کی خریداری مکمل ہونے کے بعد چابی حوالے کرنے کی تقریب میں جہاں پاکستانی سفیر اور درجن بھر امریکی سیاسی نمائندے بھی موجود تھے، بظاہر بلڈنگ خریدنے والے حفیظ خان صحافیوں کی جانب سے اس خریداری میں “ اقدار “ کے کردار پر کیے جانے والے سوالات پر کبھی دائیں گھوم جاتے تو کبھی بائیں، تو کبھی “ اقدار “ کے کرتا دھرتا دبیر ترمذی کی جانب بے بسی سے دیکھنے لگتے، دبیر ترمذی جو گزشتہ چھ ماہ سے بل بلڈنگ کی خریداری کو لیکر واشنگٹن کے آسمانوں میں محوِ پرواز تھے، مجھ سے مسلسل رابطے میں تھے اور کہا کرتے “بلڈنگ کی خریداری مکمل ہونے دیں آفاق بھائی پھر کھیل دیکھیے گا “۔  مگر دون قبل جب بلڈنگ کی خریداری مکمل ہوئی ہے ، بھائی واشنگٹن کے آسمان پر کہیں نظر آرہے ہیں نہ زمین پر انکی موجودگی کا کہیں کوئی سراغ مل پارہا ہے بس کبھی کبھی واٹ ساپ پر لمحے بھر کو جلوہ افروز ہوتے ہیں اور یہ فرما کر پردہ کر جاتے ہیں “ بلڈنگ حفیظ خان نے خریدی ہے اور“ اقدار“ کا اس خریداری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ “

آخر میں امریکہ میں رہنے والے دوستوں کی اطلاع کے لئے عرض ہے انتخابات جب بھی ہوں نتیجے میں حکومت بالکل ایسے ہی بنے گی جیسے کشمیر سے گلگت بلتستان میں بنی یا کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں ۔۔۔۔ مطلب پی ٹی آئی کے دھڑے پی پی سے آن ملیں گے، کہا جاتا ہے مسلم لیگ بھی اسی فارمولے پر راضی ہے وہ مریم نواز کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے یہ الگ بات ہے احسان کی قیمت چکانے کے مطالبے نیا رخ اختیار کرلیں جس میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ میڈیا کے “انقلابیوں “نے تاریخی کردار ادا کیا ہے۔

Comments are closed.