19 جولائی یوم الحاق پاکستان

تحریر: محمد شہباز

اسلام آباد:آج کنٹرول لائن کے دونوں ا طراف اور دنیا کے دیگر حصوں میں رہنے والے کشمیری “یوم الحاق پاکستان منارہے ہیں۔آج کا یہ دن مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غاصبانہ اور ناجائز قبضے کے خاتمے کیلئے جدوجہد آزادی کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے عہد کی تجدید کے طور پر ہر سال منایا جاتا ہے۔19 جولائی 1947 میں حقیقی کشمیری قیادت نے سرینگر میں سردار ابراہیم خان کی رہائش گاہ پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی بھارتی قبضے سے آزادی اوراس کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی تھی۔ 1947 میں آج کے دن کشمیری عوام نے سرینگر میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ایک تاریخی قرار داد منظور کی، جس میں جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کیا گیا۔

برصغیر پر انگریزوں کے اقتدار کا سورج جب غروب ہورہا تھا تو انگریزوں نے آبادی کی مناسبت اور جغرافیائی حیثیت کی بنیاد پر برصغیر کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ جموں و کشمیر کی مسلم اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتی تھی۔ اس کے ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے عوامی جذبات کے بر خلاف ریاست جموں وکشمیر کو خود مختار رکھنے کا اعلان کیا، جسکے پیچھے اپنی خود غرضانہ خواہشات کی تکمیل کے سوا کچھ نہیں تھا۔

کشمیری 19 جولائی کو ہر سال یوم الحاق پاکستان کے طور پر مناتے ہیں تاکہ اس عزم کا اعادہ کیا جا سکے کہ جب تک مقبوضہ جموں و کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بن جاتا وہ اپنی عظیم ،لازوال اور تاریخی جدوجہد جاری رکھیں گے۔الحاق پاکستان کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ “مسلم کانفرنس کا کنونشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ جغرافیائی حالات، 80 فیصد سے زائد مسلم آبادی، ریاست سے گزرنے والے پنجاب کے اہم دریا، زبان، مذہبی ،ثقافتی، نسلی اور معاشی تعلقات ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی تصدیق کرتے ہیں۔لہذا ان تمام تر حالات و واقعات کے پیش نظر ریاست جموں وکشمیر کا مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ الحاق ضروری اور ناگزیر ہے۔

 

مہاراجہ کے دھوکہ اور خود غرضی پر مبنی اعلان کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام نے بغاوت کر دی۔ ہندو مہاراجہ نے فوری طور پر بھارت کی فوجی مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ بھارت نے 27 اکتوبر 1947 میں تمام بین الاقوامی قوانین،اصولوں اور ریاست جموں وکشمیر کے آئین کو پامال کرتے ہوئے مہاراجہ کے ساتھ نام نہاد الحاق سمجھوتے کے بہانے اپنی فوجیں سرینگر ایئر پورٹ پر اتار دیں۔جس کے جواب میں پاکستان کے رضاکار بھی اپنے نہتے مسلمان بھائیوں کو قابض بھا رتی افواج کے ظلم وجبر اور قہر سامانی سے بچانے کے لیے مقبوضہ جموں وکشمیر میں داخل ہو گئے۔ نتیجے کے طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے کچھ حصے آزاد کیے گئے،جس سے آزاد جموں و کشمیر کے نام سے جانا جاتا ہے ۔بھارت نے اپنی واضح شکست اور پاکستان کی برتری کو دیکھ کرفوری طور پر اقوام متحدہ کا دروازہ کٹھکٹھایا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنا اجلاس بلایا اور قرار داد نمبر 47، 51، 80، 96، 98،122 اور 126 میں فیصلہ کیا کہ اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام کی مرضی اور منشا کے مطابق کیا جائے گا جس کا اظہار جمہوری طریقہ کار کے تحت آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے کیا جائے گا۔

برصغیر کی تقسیم کے دورا ن جموں و کشمیر کے لوگوں نے جن میں مسلم اکثریت تھی، انگریزوں کے زیرقیادت فارمولے کے مطابق پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ منطقی طور پر درست فیصلہ تھا کیونکہ “جموں و کشمیر کے تقریبا تمام بڑے جغرافیائی، مواصلاتی اور اقتصادی روابط مغربی پنجاب اور صوبہ خیبر پختون خوا کے ان علاقوں کے ساتھ تھے جو پاکستان کا حصہ بننے والے تھے۔” ایک ریلوے لائن جو جموں و کشمیر میں داخل ہوئی تھی وہ سیالکوٹ سے شمال مغربی ریلوے کا ایک حصہ تھی، جو پاکستان میں جموں و کشمیر کے سرمائی دارالحکومت جموں شہر سے تقریبا 25 میل دور تھی۔اس ریلوے لائن کی طرح جموں شہر کی مرکزی سڑک سیالکوٹ سے ملتی تھی۔ جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر میں داخل ہونے والی تین سڑکوں سے دو ایسی جگہوں سے داخل ہوئیں جو پاکستان کا حصہ بننا تھیں۔یہ تمام حالات وواقعات اس بات کی شواہد کیلئے کافی تھے کہ مذہب اور جغرافیہ کی بنیاد پر جموں وکشمیر پاکستان کا ہونا چاہیے تھا۔

تاہم مہاراجہ نے اعلان کیا کہ جموں و کشمیر نہ تو بھارتی ہے اور نہ ہی پاکستانی۔ یہ اس کی خود مختاری کو بچانے کے نام پرایک چال تھی۔ اس کی سلطنت صرف 77% آبادی پر مشتمل تھی، لیکن مقبوضہ جموں وکشمیر 92% مسلم آبادی پر مشتمل تھا، جس کی750 سے زائد کلو میٹر سرحدیں پاکستان کے ساتھ ملتی ہیں اور بھارت کے ساتھ کوئی سرحد نہیں۔ان تمام حالات کے پیش نظر 1947 میں سرینگر میں سردار ابراہیم خان کی رہائش گاہ پر متفقہ طور پر منظور ہونے والی قرارداد میں کہا گیا کہ ‘موجودہ مذہبی، جغرافیائی، ثقافتی، اقتصادی تعلقات اور لاکھوں کشمیری مسلمانوں کی خواہشات ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی ضمانت دیتی ہیں۔
معاشی طور پر بھی ریاست جموں وکشمیر کا پاکستان سے الحاق ممکن تھا کیونکہ جموں و کشمیر کے ان علاقوں کے ساتھ روابط جو اس نئے علاقے کا حصہ بننے والے تھے بہت اہم تھے۔ وادی کشمیر سے 98 فیصد تک لکڑی کی برآمدات جہلم ویلی روڈ کے راستے راولپنڈی جاتی تھیں – راولپنڈی کو وادی کشمیر جانے اور آنے والے سامان کیلئے ایک ‘گودام’ سمجھا جاتا تھا۔جموں و کشمیر سے سامان مغربی ریل نیٹ ورک پر کراچی لے جایا جاتا تھا۔ شاہی ریاست کے لیے روایتی بندرگاہ اس قربت کی وجہ سے کراچی کو بمبئی یا کلکتہ بھیجے جانے والے سامان پر 65 فیصد مال برداری کا فائدہ تھا۔19 جولائی 1947 میں خواجہ غلام الدین وانی اور عبدالرحیم وانی کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد، جس میں 59 مزیدرہنما بھی شریک تھے، پونچھ کی بغاوت اور بالآخر آزاد کشمیر کی آزادی پر منتج ہوئی۔

1947 میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہرلال نہرو نے اقوام متحدہ میں مذکورہ بالا قراردادوں کی روشنی میں پوری دنیا کو گواہ ٹھرا کرکشمیری عوام کے ساتھ وعدہ کیا کہ انہیں اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کیلئے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ریفرنڈم کرایا جائے گا ۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پنڈت نہرو اپنے وعدوں سے مکرگیا اور اس کی جگہ ایک نیا اور بے بنیاد بیانیہ گھڑ لیا ہے کہ “جموں وکشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے”۔

occupied kashmir news - News Diplomacy

کشمیری عوام نے اس نام نہاد بیانیے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ بھارت نے عالمی ادارے سے مدد کے لیے اقوام متحدہ سلامتی کونسل سے رجوع کیا۔ بھارت نے اقوام متحدہ کے سامنے کشمیری عوام کو ان کا بنیادی حق خودارادیت فراہم کرکے تنازعہ کشمیر حل کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن بعد میں اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ گیا۔
19 جولائی 1947 کی قرارداد الحاق پاکستان اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھی کہ کشمیری عوام نے اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔کشمیر ی عوام مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غیر قانونی،ناجائز،غاصبانہ اور غیر اخلاقی قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کیا ہے۔ اورپھر1989 میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے آزادی کی تحریک شروع کی۔جس میں اب تک ایک لاکھ کشمیری اپنی جانوں سے گزر چکے ہیں،ایک لاکھ سے زائد بچے یتیمی کی زندگی بسر کررہے ہیں،23000 خواتین بیوہ اور 800 آدھ بیوہ ہیں،10000 سے زائد کشمیری گرفتاری کے بعد دوران حراست لاپتہ کیے جاچکے ہیں،ہزاروں گمنام قبریں مقبوضہ جموں و کشمیر کے چپے چپے پر موجودہیں ،جن میں بے شمار لوگوں کو اجتماعی طور پر دفن کیا گیا۔ان لاپتہ افراد کے لواحقین آج بھی ان کی واپسی کے انتطار میں ان کی راہیں تک رہے ہیں۔اسی انتظار میں نہ جانے کتنے والدین اس دنیا سے جاچکے ہیں۔کچھ تو اپنی آنکھوں کی بینائی سے بھی محروم ہوچکے ہیں اور آج بھی اقبال پارک سرینگر میں ان لاپتہ افراد کے لواحقین گھنٹوں دھرنے پر بیٹھ کر اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہیں۔ رقعت آمیز مناظر کے موقع پر ہر آنکھ اشکبار ہوتی ہے،مگر یہ لواحقین نہ تحریک آزادی کشمیر سے منہ موڑے اور نہ ہی بھارتی جبر کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کیا ہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیرمیں گزشتہ سات دہائیوں کے دوران بدترین بھارتی ریاستی دہشت گردی اور ہندو انتہا پسندی کی جاری لہر اس بات کی گواہی کیلئے کافی ہے کہ کشمیری عوام کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ مکمل طور پر درست ،جائز اور برحق تھا۔ یہ قرارداد الحاق پاکستان اب بھی درست اور اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ کشمیری عوام کا پاکستان کے ساتھ روحانی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی رشتے ہیں اور وہ حالات کے تمام تر جبر کے باوجود پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔5اگست2019 میں آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ اور مقبوضہ جموں وکشمیرمیں آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنے کی بھارتی کوششوں اور اقدامات سے الحاق پاکستان کی قرارداد کی توثیق پر کوئی اثر نہیں پڑا اور نہ ہی پڑے گا کیونکہ بھارت کا یہ غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریحاخلاف ورزی ہے۔
کشمیری عوام کے سیاسی،سماجی اور معاشی حقوق بھارتی قبضے میں محفوظ نہیں ہیں۔ 05 اگست 2019 میں آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کرنے کے بعدمودی حکومت نے مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر کو سیاسی طور پر بہت کمزور بنانے کے لیے انتخابی حلقہ بندیوں کو از سر نوترتیب دیا ہے ۔جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر پر ایک ہندو وزیراعلی مسلط کرکے 05 اگست2019 ء کے ماورائے آئین اقدامات کو ریاستی اسمبلی سے توسیع دالائی جاسکے۔مودی حکومت کی از سر نو حلقہ بندیوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی تمام بھارت نواز سیاسی جماعتوں نے یکسر مسترد کیا ہے۔

تحریک آزاد کشمیر کے بطل حریت سید علی گیلانی کا مشہور نعرہ، ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے، حقیقی معنوں میں اہل کشمیرکی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہے اور خود انہوں نے اج سے کئی برس قبل سرینگر میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر پاکستان کا قدرتی حصہ ہے ،کیونکہ جب ہوائیں چلتی ہیں تو ایک ساتھ چلتی ہیں ،چاند کا مطلع ایک ساتھ کا مطلع ہے ،سرینگر راولپنڈی سٹرک شدید بادو باراں کے باوجود کبھی بند نہیں ہوتی ،ہماری زبان ایک ،ثقافت ایک ،رسم ورواج ایک اور سب سے بڑھ کر مذہب ایک ہے ،تو ان شواہد کی موجودگی میں سید علی گیلانی کہتے ہیں کہ ریاست جموں وکشمیر قدرتی طور پر پاکستان کا حصہ ہے۔آزادی کی جدوجہد 7 دہائیاں گزرنے کے بعد آج بھی پوری قوت کے ساتھ جاری ہے۔نہ جانے کتنے نشیب و فراز آئے ،مگر اہل کشمیر پوری قوت کے ساتھ خون سے سینچی ہوئی تحریک آزادی کے ساتھ چٹان کی مانند کھڑے گونگی بہری دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ان کی تحریک آزادی آج بھی جاری و ساری ہے اور آج بھی اہل کشمیر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے گریز نہیں کرتے،جس کی تازہ ترین مثال صوبہ جموں کے ضلع پونچھ میں بھارتی وردی پوشوں کے ہاتھوں 6 نوجوانوں کی شہادت ہے جنہیں 17 جولائی کو سیندرہ سرنکوٹ اور کرشنا گھاٹی کے مقام پر فوجی آپریشنوں میں شہید کیا گیا۔یہ قربانیاں ان کے ساتھ وفا کا تقاضا کرتی ہیں۔

Comments are closed.