اسلام آباد: 14 اور 15 اگست 1947 میں برصغیر کے دو ممالک معرض وجود میں آئے۔14 اگست کو پاکستان مصنئہ شہود پر رونما ہو ا جبکہ صرف ایک دن کے فرق سے یعنی 15 اگست کو بھارت آزاد ہوا۔آزادی سے قبل دونوں متحدہ ہندوستان کے نام سے جانے جاتے تھے اور دونوں انگریزوں کی غلامی میں تھے۔حالانکہ انگریز خطے میں تجارت کی غرض سے آئے تھے اور پھر قابض ہی ہوگئے۔انگریزوں کے مظالم نے یہاں رہنے والوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ جو لوگ ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام پر تجارت کرنے آے تھے وہیں نہ صرف مختار کل بن بیٹھے بلکہ انسانوں کو ہی اپنا غلام بنالیا۔متحدہ ہندوستان میں1857 میں انگریزوں کے خلاف بغاوت نے جنم لیا اور پھر اس بغاوت میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔یہاں تک کہ 1947 آن پہنچا اور انگریزوں کو نہ صرف متحدہ ہندوستان سے اپنا بوریا بسترا گول کرنا پڑا جس کے نتیجے میں متحدہ ہندوستان دو ملکوں میں تقسیم ہوا،پاکستان اور بھارت۔جاتے جاتے انگریز جو کہ بڑے شاطر واقع ہوئے ،اس تقسیم یا بٹوارے میں بڑی شاطرانہ ڈنڈی ماری ۔متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت یہ فیصلہ ہوا تھا کہ مسلم علاقے پاکستان کے ساتھ اور ہندو علاقے بھارت کے ساتھ رہیں گے ۔جس پر دونوں ممالک راضی ہوگئے۔البتہ مقبوضہ جموں وکشمیر،حیدر آباد اور جونا گڑھ کے معاملے میں تاریخ کی بدترین ناانصافی کی گئی۔
یہ تینوں مسلم اکثریتی علاقے ہیں اور تینوں نے پاکستان کیساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرنا چاہا،مگر انگریزوں کاشاطرانہ طرز عمل اور بھارتی حکمرانوں کا چانکیائی فلسفہ کام کرگیا۔پہلے حیدر آباد اور جونا گڑھ کو ہڑپ کیا گیا پھر مقبوضہ جموں وکشمیر جس کا بھارت کے ساتھ کوئی زمینی رابطہ نہیں تھا گرداسپور کے راستے سے بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیر تک رسائی دی گئی۔یوں تقسیم برصغیر کے اصولوں کی مٹی نہ صرف پلید بلکہ کروڑوں انسانوں کو ایک ایسے ملک کی غلامی میں دیا گیا جو ایک برہمن سامراج ہے ،جس کے نزدیک انسانی اقدار اور تہذیب و تمدن کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
گو کہ اہل کشمیر 13 جولائی 1947 میں ہی ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ کرچکے تھے لیکن دنیا کی بے حسی اور ناانصافی نے ایک ایسی بے اصولی کو پروان چڑھایا جس کی تلافی انسانی حقوق کی مسلسل کرنا پڑرہی ہے ۔کشمیری عوام کی خواہشات کے برعکس بھارت ان پر قابض ہوگیا اور تب سے لیکر آج تک قابض چلا آرہا ہے۔گو کہ بھارتی حکمرانوں نے طاقت کے بل پر اہل کشمیر کو اپنا غلام بنالیا لیکن کشمیری عوام نے بھارت کے غاصبانہ اور ناجائز قبضے کو قبول نہیں کیا ۔76 برسوں سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں 14اور 15 اگست بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔پہلے دن یعنی 14 اگست کو اہل کشمیر یوم آزادی پاکستان نہ صرف جوش و جذبے سے مناتے ہیں بلکہ پاکستان کے سبز ہلالی پرچم بھی لہراتے ہیں۔صرف ایک دن کے وقفے سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات یکسر بدل ہوجاتے ہیں۔15 اگست بھارت کا یوم آزادی کشمیری عوام کیلئے یوم سیاہ کی شکل اختیار کرتا ہے۔جہاں 14 اگست کو جشن منایا جاتا ہے 15 اگست کو یوم سیاہ منایا جاتا ہے۔پہلے دن 14اگست کو سبز ہلالی پرچم لہرائے جاتے ہیں 15 اگست ان کی جگہ سیاہ پرچم لیتے ہیں۔14 اگست کو گھروں میں چراغاں ہوتا ہے اور 15 اگست کو بلیک آوٹ۔بھارت تمام تر طاقت کے وحشیانہ استعمال کے باوجود مقبوضہ جموں و کشمیر میں یہ صورتحال تبدیل نہیں کراسکا۔یہاں تک کہ 05 اگست 2019 میں بھارت نے اپنے ہی آئین میں درج مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ہی منسوخ کرڈالی۔یہ اقدام اس لیے کیا گیا کہ شائد اہل کشمیر کو مرعوب کرکے انہیں بھارتی قبضہ قبول کرنے پر مجبور کیا جائے مگر یہ وار بھی خالی ہوگیا۔
چشم فلک نے بارہا اس بات کا مشاہدہ کیا کہ تاریخ کے بدتریں جبر کے باوجود بھارت کشمیری عوام کو اپنا غاصبانہ قبضہ تسلیم کرانے پر ناکام ہوچکا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں دس لاکھ سے زائد بھارتی فوجیوں کی موجودگی کی تعیناتی ،ڈرونز اور سی سی ٹی وی کیمروں کی نگرانی کے باوجود کشمیری عوام نے امسال بھی 14اگست کو پاکستان کے ساتھ اظہار محبت کے لئے سرینگر، بارہمولہ، بڈگام، شوپیاں، پلوامہ، اسلام آباد، کولگام اور جموں خطے کے کئی مقامات پر پاکستانی پرچم لہرائے ۔ اگرچہ بھارت اپنے نام نہاد یوم آزادی سے قبل ہی پورے خطے کو ایک فوجی چھائونی میں تبدیل کرتا ہے ،اور چڑیا بھی پر نہیں مارسکتی لیکن اس کے باوجود13 اگست کی رات 12بجتے ہی کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ والہانہ عقیدت کا اظہار اور سبز ہلالی پرچم جگہ جگہ نصب کرتے ہیں۔05اگست 2019 کے بعدمقبوضہ جموں وکشمیر میں پوسٹرز چسپاں کرنے کا رجحان بھی بڑھ گیا ہے۔جن میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح،شاعر مشرق علامہ محمد اقبال اور بھارتی جیلوں و عقوبت خانوں میں مقید آزادی پسند رہنمائوں کی تصاویر کے ساتھ ان کے پیغامات تحریر ہوتے ہیں۔15 اگست کو بھی پوسٹرچسپان کیے جاتے ہیںجن میں کشمیری عوام سے بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طوپر منانے کی اپیل درج ہوتی ہے۔
نام نہاد بھارتی یوم آزاد ی کو کنٹرول لائن کی دونوں جانب ،پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں مکمل ہڑتال کی جاتی ہے ،جس کی کال کل جماعتی حریت کانفرنس اور دوسری آزادی پسند جماعتیں دیتی ہیں جبکہ تمام مذہبی،سیاسی اور سماجی تنظیمیں ہڑتال کی حمایت کرتی ہیں۔ہڑتال سے تمام کاروباری سرگرمیاں معطل ہوجاتی ہیں،صرف بھارتی فوجی اور ان کی گاڑیاں سنسان سڑکوں پر گشت کرتی نظرآتی ہیں۔ کشمیری عوام ہر سال15 اگست کو نام نہاد بھارتی یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔کشمیری عوام کی جانب سے بھارت کے نام نہاد یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منانادنیا کی توجہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر غاصبانہ اور ناجائز بھارتی قبضے کی طرف مبذول کرانا ہے کہ بھارت ایک غاصب ہے،جس نے تمام بین الاقوامی اصول و قوانین اور ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے کشمیری عوام کو ان کی خواہشات کے برعکس طاقت کی بنیاد پر غلام بنا رکھا ہے۔بھارت کو اپنا نام نہاد یوم آزادی منانے کا کوئی حق نہیں ہے جب تک کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیرکے عوام کو ان کا حق خود ارادیت نہیں دیتا،جس کا وعدہ بھارت نے اقوام عالم کو گواہ ٹھرا کر کشمیری عوام کے ساتھ کیا ہے۔بھارت کے پاس اپنا نام نہاد یوم آزادی منانے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے کیونکہ اس نے کشمیری عوام کے تمام جمہوری اور بنیادی حقوق چھین لیے ہیں۔
شرم کی بات ہے کہ بھارت اپنی آزادی پر خوشی منارہا ہے لیکن اسی آزادی کے مطالبے پر کشمیری عوام کاقتل عام کر رہا ہے۔بھارت نے گزشتہ 34 برسوں میں 96,000 سے زائد کشمیریوں کو بے دردی سے قتل کیا لیکن پھر بھی اپنا یوم آزادی بے شرمی سے منا رہا ہے۔کشمیری عوام ہر حال میں بھارتی غلامی سے آزادی چاہتے ہیں۔جس کیلئے آج تک سوا پانچ لاکھ سے زائد جانوں کی قربانیاں دی جاچکی ہیں ۔اہل کشمیرنے اپنے مادر وطن پر بھارت کے ناجائز اور غیر قانونی قبضے کو کبھی قبول نہیں کیا اور نہ ہی آئندہ کریں گے۔5 اگست 2019 میں غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات نے پھر ایک بار یہ ثابت کیا ہے کہ بھارت ایک قابض قوت ہے۔دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت ہونے کا بھارتی دعوی مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بے نقاب ہوچکا ہے۔اب یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت کو نہ صرف مسلہ کشمیر اس کے تاریخی تناظر بلکہ کشمیری عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق حل کرنے پر مجبور کرے،کیونکہ مسئلہ کشمیر دو ممالک کے درمیان کوئی سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ ایک مسلمہ متنازعہ مسئلہ ہے جس کی متنازعہ حیثیت اقوام متحدہ بھی76 برس قبل تسلیم کرچکی ہے جس کی گواہی 16سے زائد قرادا دیں آج بھی دے رہی ہیں،جوہنوز عملدرآمد کی منتظر ہیں۔عالمی برادری کب تک اس تنازعے سے آنکھیں چراتی رہیں گئیں دیر سویر اس مسئلے کو حل کرنا پڑے گا۔
Comments are closed.