سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی انٹرا کورٹ اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔سماعت کے حکمنامے میں کہا گیاہے کہ کوئی بھی فریق سات دنوں میں جواب داخل کروانا چاہے تو کرواسکتا ہے۔ عدالت نے نیب سے دس سالہ بجٹ کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت کی ۔ وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ ہم نے سیکشن دو میں ترامیم کا اطلاق ماضی سے کرنے کو چیلنج کیا تھا، سیکشن 4، 16 ،21 جی اور سیکشن 25 ڈی میں ترمیم کو چیلنج کیا گیا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ احتساب ایکٹ کا مقصد بھی سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانا ہی تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ ایک بات پر تو قوم کے لیے بیٹھ جائیں، جوائنٹ سیشن میں نیب قانون کو دوبارہ ٹھیک کرلیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے فاروق ایچ نائیک نے بھی دلائل دئیے ۔ عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا جبکہ چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوایا۔ حکمنامے میں کہا گیاہے کہ نیب کا 10 ارب ڈالر ریکوری کا کریڈٹ لینا سرپرائزنگ تھا، اداروں کی جانب سے ایسی غلط دستاویزات جمع نہیں ہونی چاہیے، کوئی بھی فریق سات دنوں میں جواب داخل کروانا چاہے تو کرواسکتا ہے۔ عدالت نے نیب سے دس سالہ بجٹ کا ریکارڈ طلب جبکہ نیب وکیل کی جانب سے جمع کرایا گیا جواب مسترد کردیا۔
واضح رہے کہ پی ڈی ایم دور حکومت میں نیب قانون میں ترامیم کی گئی تھیں جن کے خلاف بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی،سابق چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے اپنی مدت ملازمت کے آخری روز 15 ستمبر 2023 کو دو / ایک کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے 10 میں سے 9 ترامیم کالعدم قرار دے دیں تاہم جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے پر اختلاف کیا ۔ فیصلےکے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے انٹراکورٹ اپیلیں دائر کیں،سپریم کورٹ نے 10 مئی 2024 کو اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ عدالت نے مختلف سماعتوں کے بعد آج فیصلہ محفوظ کرلیا۔
Comments are closed.